سورة یونس - آیت 1

الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ا۔ ل۔ ر یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(1۔14) میں ہوں اللہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا سچ سمجھو کہ یہ سورت باحکمت کتاب یعنی قرآن کے حکم ہیں جو لوگ ان کو نہیں مانتے تو کیا ان لوگوں کو اس امر سے تعجب ہوا ہے کہ ہم (اللہ) نے ان میں سے ایک آدمی پر یہ الہام کیا ہے کہ تو لوگوں کو برے کاموں پر عذاب سے ڈرا اور جو لوگ تیری تعلیم پر ایمان لاویں ان کو خوشخبری سنا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی بڑی عزت ہے اتنی ہی بات پر کافر کہنے لگے کہ یہ شخص صریح جادوگر ہے کیونکہ جو اس کی مجلس میں جاتا ہے اسی کا ہوجاتا ہے سنو ! جس تعلیم کی طرف یہ بلاتا ہے وہ تمہارے پروردگار مالک الملک کی عبادت کی تعلیم ہے لوگو ! تمہیں کیا ہوا کہ ایسے مالک الملک سے ہٹے جا رہے ہو سنو ! کچھ شک نہیں کہ تمہارا پروردگار جس کی طرف تم کو رسول بلاتا ہے وہ ذات پاک ہے جس نے آسمان اور زمین چھ دنوں میں بنائے ہیں پھر حکومت کے تخت پر بیٹھا اور سب پر مناسب حکمرانی کرتا ہے وہی احکام جس طرح چاہتا ہے جاری کرتا ہے اس کی جناب میں بغیر اذن کوئی سفارشی نہیں ہوسکتا یہ اللہ جو موصوف بہمہ صفات ہے تمہارا رب ہے پس تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہ کرو کیا پھر بھی تم سمجھتے نہیں ہو کہ جو خالق نہیں وہ معبود کیسا؟ سنو ! اسی کی طرف تم نے پھرنا ہے تمہاری جزا سزا دینے کے متعلق اللہ کا وعدہ سچا ہے وہی پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور عمل اچھے کئے ان کو بعد موت انصاف سے پورا پورا بدلہ دیوے کہ جو انہوں نے نیک کام کرنے میں ظالموں سے تکلیفیں اٹھائی ہیں ان کا عوض ان کو ملے اور جو کافر ہیں ان کو کھولتا ہوا پانی اور ان کے کفر کی پاداش میں دردناک عذاب ہوگا وہ تمہارا پروردگار جانتے ہو کون ہے وہی ہے جس نے آفتاب کو بذاتہ چمکتا ہوا بنایا اور چاند کو سورج سے مستفیض روشن اور چاند کی منزلیں ٹھہرائیں جن سے اس کی ترقی و تنزل معلوم ہو کبھی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے کبھی گھٹتا ہوا تاکہ تم اور فوائد کے علاوہ جو نظام عالم میں اس سے وابستہ ہیں یہ فائدہ بھی لو کہ اس کے ذریعہ سے سالوں کا شمار اور معمولی کاروبار میں تاریخوں کا حساب جان لیا کرو اس قمری حساب سے گو موسموں کا اندازہ نہیں ہوسکتا مگر اس میں شک نہیں کہ قدرتی ہونے کی وجہ سے آسان ہے کیونکہ کسی آدمی کی صنعت کو اس میں دخل نہیں اگر تمام دنیا کی جنتریوں کو اور جنتریاں بنانے والوں کو معدوم فرض کریں تو یہی قمری تاریخ ہے جو اپنا ثبوت دے سکتی ہے شمسی نہیں دے سکتی اسی لئے تم عرب کے لوگوں کو اسی تاریخ کی تعلیم دی گئی ہے۔ سنو ! اللہ نے اس مخلوق کو عبث نہیں بنایا بلکہ ضروری فوائد اور نتائج حقہ کے لئے بنایا ہے جو لوگ کچھ علم رکھتے ہیں ان کے فائدے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے احکام اور دلائل مفصل بتلاتا ہے کیا آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش جو اپنی ضخامت کی وجہ سے سب سے بڑے ہیں کم ہے؟ نہیں بے شک رات اور دن کے آنے جانے میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں میں پیدا کیا ہے اس سب میں پرہیزگاروں کے لئے کئی ایک نشان ہیں مگر جو لوگ ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر خوش اور مسرور ہو بیٹھے ہیں اور اسی دنیا ہی پر مطمئن ہیں اور جو ہمارے نشانوں سے غافل ہیں ان کے بد اعمال کے بدلے میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے جس سے کبھی بھی مخلصی نہ پاویں گے ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کے ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو جنت کی طرف راہ نمائی کرے گا نعمتوں کے باغوں میں ان کے مکانوں کے تلے نہریں جاری ہوں گی اس نعمت کے شکریہ میں ان باغوں میں ان کی آواز اور پکار سبحانک اللہم ہوگی (اے ہمارے اللہ تعالیٰ تو پاک ہے) اور فرشتوں کی جانب سے ان کا تحفہ ان باغوں میں سلام ہوگا اور مجلس کی برخاستگی کے وقت ان کی آخری بات ہوگی الحمدللہ رب العلمین (سب تعریفیں اللہ رب العالمین کو ہیں) یہ دنیا ساز کم بخت کرتے کراتے تو کچھ بھی نہیں بھلائی کے بڑے خواہشمند ہیں اور اگر اللہ ان لوگوں کو بداعمالی پر ان کو برائی پہنچانے میں جلدی کرتا جیسے وہ بھلائی جلدی چاہتے ہیں تو ان کی اجل اور موت کا ابھی فیصلہ ہوجاتا یعنی ایک دم بھی زندہ چھوڑنے کے قابل نہیں ہیں مگر پھر بھی ہم (اللہ) بوجہ اپنے کمال علم اور بردباری کے ایسا نہیں کرتے بلکہ جو لوگ ہمارے ملنے سے بے ڈر ہیں ہم ان کو سرکشی میں چھوڑ دیتے ہیں ایسے کہ حیران و پریشان پھرتے ہیں یہ بھی تو ایک بے ایمانی اور بے امیدی کی بات ہے کہ جب نالائق آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کروٹ پر لیٹا ہوا اور بیٹھا اور کھڑا غرض ہر طرح سے ہم کو پکارتا ہے مختصر یہ کہ ان کا حال بھی وہی ہوتا ہے جو کسی صاحب دل نے کہا ہے عام اندر زمان معزولی شیخ شبلی و بایزید شوند پھر جب ہم اس سے تکلیف ہٹا دیتے ہیں تو ایسا اکڑکر چلتا ہے گویا ہم کو اس نے کسی تکلیف کے لئے جو اسے لگی تھی کبھی پکارا ہی نہیں تھا وہی شرارتیں وہی بدذاتیاں جو پہلے تھیں پھر کرنے لگ جاتا ہے بدمعاش یہ نہیں جانتا کہ جس شیر کے پنجے میں میں پہلے پھنسا تھا اب بھی اس میں پھنس جانا ممکن ہے جس طرح ایسے لوگوں کو ایسی خود غرضی بیلگ معلوم ہوتی ہے اسی طرح حد عبودیت سے تجاوز کرنے والوں کو ان کے کام بھلے اور سجے ہوئے معلوم ہوتے ہیں پس گھبرائو نہیں ہم تمہاری خوب گت بنائیں گے اور تم سے پہلے کئی ایک جماعتوں کو ہم نے ہلاک کیا جب وہ ظلم پر مصر اور بضد ہوئے اور ان کے پاس ان کے رسول کھلے نشان لے کر آئے اور وہ اپنی شرارت پر ایسے اڑے کہ ایمان لانے اور حقانی تعلیم کے ماننے پر انہوں نے رخ بھی نہ کیا اسی طرح مجرموں کی قوم کو ہم سزا دیا کرتے ہیں کہ جب وہ ظلم کی وجہ سے کفر پر اصرار کرتے ہیں تو ہم ان کو ہدایت سے بے نصیب کردیتے ہیں پھر ان سے پیچھے ہم نے تم موجودہ نسل انسانی کو زمین پر ان کے جانشین بنایا تاکہ تمہارے کام بھی دیکھیں اور تمہاری لیاقت بھی لوگوں پر ظاہر کریں چنانچہ ہو رہی ہے کہ قرآن کے مقابلہ پر جہالت کی باتیں کرتے ہیں