سورة التوبہ - آیت 67

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُم مِّن بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

منافق مرد ہوں یا عورتیں، ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، جو برے کام کا حکم دیتے اور بھلے کام [٨٠] سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (بھلائی 'صدقہ سے) بھینچ [٨١] لیتے ہیں۔ وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں بھلا دیا۔[٨٢] یہ منافق دراصل ہیں ہی نافرمان

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(67۔75) مسلمانو ! منافق مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ہم جنس اور راز دار ہیں برے کاموں کا حکم کرتے ہیں اور بھلے کاموں سے منع کرتے ہیں نیکی میں خرچ کرنے میں ہاتھوں کو روکتے ہیں اللہ کو بھول گئے ہیں پس اس کی سزا میں اللہ بھی ان کو بھول چکا ہے یعنی اپنی خاص توجہ اور رحمت سے ان کو بے نصیب کر کے نظر انداز کردیا ہے بے شک منافق زن و مرد سب کے سب بے ایمان بدکار ہیں اللہ تعالیٰ نے بھی منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لئے جہنم کی آگ میں سزا دینے کا وعدہ کیا ہوا ہے جس میں یہ ہمیشہ رہیں گے وہی ان کو بس ہے اور ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے تم بھی پہلے لوگوں کی طرح کافر ہو جو اللہ تعالیٰ و رسول کے منکر تھے مگر وہ تم سے کہیں بڑھ کر زور آور اور مال اور اولاد میں بھی تم سے زیادہ تھے پھر انہوں نے اپنی قسمت کا فائدہ اٹھایا دنیا میں چند روز عیش کر لئے سو تم نے بھی اپنی قسمت کا فائدہ پایا جیسا تم سے پہلے لوگوں نے اپنی قسمت سے فائدہ اٹھایا تھا اور تم بھی اسی طرح بے ہودہ گوئی میں لگے جیسے وہ لگے تھے ان لوگوں کے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ان بدکاریوں سے پہلے اور پچھلے نیک عمل دنیا اور آخرت میں ضائع ہوچکے ہیں نہ دنیا میں وہ حقدار مدح ہیں نہ آخرت مستحق ثواب اور یہی لوگ نقصان والے ہیں کیا یہ جو ایسے مست پھر رہے ہیں اور سرکشی نہیں چھوڑتے ان کو پہلے لوگوں کی ہلاکت اور تباہی کی خبریں نہیں آئیں یعنی قوم نوح اور عاد اور ثمود اور قوم ابراہیم اور مدین والوں اور الٹی ہوئی بستیوں یعنی لوط کی قوم کے واقعات کی کس طرح ان کے پاس کھلے نشان لے کر ان کے رسول آئے تھے مگر انہوں نے ایک نہ سنی پس وہ اپنے کئے کی سزا میں بری طرح پھنسے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ان پر ظلم کا ارادہ نہ رکھتا تھا لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے مسلمانو ! جس طرح منافق ایک دوسرے کے حمایتی ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ تم کو بھی چاہئے کہ ایک دوسرے کی مدد کیا کرو کیونکہ مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں یعنی ان کو آپس میں رفاقت کرنی چاہئے ایسی کہ شیخ سعدی مرحوم کے قول کے مطابق چو عضوے بدرد آور دروزگار دگر عضو ہارا نماند قرار لیکن رفاقت کے معنی یہ نہیں کہ ایک دوسرے کے ہر نیک و بد کام میں شریک ہوجایا کریں اور امر معروف کے موقع پر خاموش رہیں کیونکہ مومنوں کی تو شان ہی یہ ہے کہ بھلے کاموں کا حکم کرتے ہیں اور برے کاموں سے روکتے ہیں اور جھوٹے واعظوں کی طرح نہیں کہ دوسروں کو سنائیں اور خود کچھ نہ کریں بلکہ وہ خود بھی نماز پڑھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں انہی پر اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے کافروں اور منافقوں کا حال تم نے سنا۔ اب نیک لوگوں کا حال سنو۔ ایماندار مرد اور عورتوں سے اللہ نے بہشت دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے تلے نہریں جاری ہیں ہمیشہ ان میں رہیں گے اور نیز دائمی بہشتوں میں رہنے کے لئے عمدہ عمدہ مکانوں کا وعدہ ہے اور اللہ کی طرف سے خوشی کا اظہار ہونا بہت بڑی قابل قدر چیز ہے اے نبی کافروں اور منافقوں سے جو ان باتوں کو نہ مانیں ان سے مناسب طریق سے مقابلہ کیا کر یعنی کافروں سے لسان اور سنان دونوں سے اور منافقوں سے لسان سے اور ان کے مقابلہ میں مضبوط رہا کر کسی طرح کے ضعف اور بزدلی کے آثار تجھ میں ظاہر نہ ہوں انجام کار تیری ہی فتح ہے اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے یہ تو ایسے کذاب ہیں کہ اللہ کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم نے یہ بات نہیں کہی حالانکہ کلمہ کفر کہہ چکے ہیں (شان نزول (یحلفون باللہ ما قالوا) منافق‘ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غائبانہ برا بھلا کہہ کر اعمالنامہ سیاہ کرتے اور اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ تم نے یہ لفظ کیوں کہے تو صاف قسم کھا جاتے ہیں کہ ہم نے تو نہیں کہے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ معالم) اور اسلام لانے کے بعد کافر ہوچکے ہیں اور ایسے کام کا قصد بھی کرچکے ہیں جس میں کامیاب نہیں ہوئے یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کا ارادہ بھی انہوں نے کیا تھا جس میں نامراد رہے اور اگر بغور دیکھا جائے تو صرف اسی پر رنجیدہ ہیں کہ اللہ نے محض اپنی مہربانی سے اور رسول نے اس کے حکم سے ان کو غنی کردیا ان کو منظم قوم بر سرحکومت بنایا مال و دولت سے مالا مال کیا مگر یہ سب ان کے حق میں ویسا ہی ہوا جس کا بیان شیخ سعدی مرحوم کے قول میں ہے نکوئی بابداں کردن چنانست کہ بدکردن بجائے نیک مرداں پھر بھی اگر توبہ کر جائیں تو ان کے حق میں بہتر ہو اور اگر نہ مانیں گے اور منہ پھیرے رہیں گے تو اللہ ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ کی مار دے گا اور زمین میں اور نہ آسمان پر ان کا کوئی والی اور نہ کوئی مددگار ہوگا