سورة البقرة - آیت 122

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے بنی اسرائیل! [١٤٨] میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تمہیں عطا کی اور تمام اقوام عالم پر تمہیں فضیلت بخشی تھی

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(122۔129)۔ اے بنی اسرائیل کے لوگو یاد کرو میرے احسان جو میں نے تم پر کیے کہ تمہیں فرعون جیسے موزی سے چھڑایا اور تمام جہان کے لوگوں پر تم کو عزت دی کہ تم میں نبی اور رسول بھیجے پھر کیا میری شکر گزاری یہی کرتے ہو کہ میرے سچے رسول کو نہیں مانتے بلکہ بجائے ماننے کے سبّ و شتم سے پیش آتے ہو آخر ایک روز تو میرے سامنے آئو گے اب بھی اگر اپنی بہتری چاہتے ہو تو مراے رسول پر ایمان لے آئو اور اس دن کے عذاب سے بچ جائو جس میں کوئی کسی کے کام نہ آئے گا اور نہ اس سے بدلہ لیا جائے گا اور نہ اس کو کسی کی سفارش ہی کچھ کام دے گی اور نہ ان مجرموں کو کسی زبر دست کی طرف سے مدد پہنچے گی کہ ہماری پکڑ سے ان کو رہائی دلا سکے بلکہ سب کے سب اپنے ہی حال میں حیران سرگردان ہونگے تعجب ہے کہ تم نے اپنے بڑوں کی اقتدا بھی چھوڑدی اور ابراہیم ( علیہ السلام) کی حالت بھی بھول گئے جب کہ اس ابراہیم ( علیہ السلام) کو اس کے اللہ نے چند باتوں کا حکم دیا پس اس بندہ کامل نے ان سب کو پورا کیا جب اس کے انعام میں اللہ نے اس کو کہا کہ میں تجھ کو سب لوگوں کا امام اور پیشوا بنائوں گا وہی لوگ نجات پائیں گے جو تیرے پیچھے چلیں گے وہ اپنے نیک ارادوں سے بولا ! یا اللہ مجھے امام بنا اور میری اولاد میں سے بھی کسی کو یہ رتبہ نصیب کر کہ وہ بھی مخلوق کی رہنمائی کریں کیونکہ اولاد کی لیا قت آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اللہ تعالیٰ نے کہا بے شک تیری اولاد سے بھی یہ رتبہ بعض کو ملے گا مگر چونکہ پانچوں انگلیاں بھی یکساں نہیں ہوتیں اس لئے ان میں بعض بد کردار بھی ہونگے جو آپس میں ظلم و ستم کریں گے پس ایسے ظالموں کو یہ میرا وعدہ نہیں پہنچے گا ایسے اخلاص اور اطاعت کے سبب سے ہم نے ابرا ہیم ( علیہ السلام) کے نیک کام کو قبول کیا تمہیں یاد نہیں ؟ کہ جب ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام) کے بنائے ہوئے کعبہ کو لوگوں کا مرجع اور بڑے امن کی جگہ بنایا اور عام طور پر حکم دیا کہ ابرا ہیم ١ ؎ ( علیہ السلام) کی جگہ نماز پڑھو (شان نزول :۔ حضرت عمر (رض) نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مقام ابراہیم میں نماز پڑھا کریں۔ ان کی درخواست پر یہ آیت نازل ہوئی۔ راقم کہتا ہے اس آیت سے بلحاظ اس قصہ کے فاروق اعظم (رض) کی کمال بزرگی ثابت ہوتی ہے مگر دیکھنے کو چشم بصیرت چاہیے۔) اور اس کی دعا کا کسی قدر ظہور تو اس کی زندگی میں ہی ہوگیا تھا کہ ہم نے ابراہیم ( علیہ السلام) اور اس کے بڑے بیٹے اسمٰعیل ( علیہ السلام) کو حکم بھیجا کہ میرا عبادت خانہ طواف اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع سجود کرنے والوں کے لئے شرک کی آلودگی سے صاف ستھرا رکھو اس پر بھی اس بندہ کامل نے پورا عمل کیا اس کی اخلاص مندی کا ایک واقعہ اور بھی سنو ! جب ابراہیم ( علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے مولا اپنی مہربانی سے اس شہر مکہ کو بڑے آرام کی جگہ بنا جس طرح اس کے ارد گرد لوٹ گھسوٹ ہوتی ہے اس میں نہ ہو اور ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ مثل سابق اب کی دفعہ بھی میری دعا فی الجملہ واپس نہ ہوگی۔ اس لئے اس نے بعد سوچ بچار ڈرتے ڈرتے یہ کہا کہ اس کے رہنے والوں کو جو پختہ طور سے اپنے اللہ کو مانیں اور قیامت کے دن پر یقین لاویں محض اپنی مہربانی سے عمدہ عمدہ میوے نصیب کر چونکہ یہ درخواست ابراہیم ( علیہ السلام) کی کچھ ایسے مطلب کی نہیں تھی جو کسی قوم نیک یا بد سے مخصوص ہو اس لئے کہ دنیا کا رزق تو عام طور پر ایسا ہے کہ باتیرے مومن حیران ہیں اور بہتیرے فاسق و فاجر مزے میں گزارتے ہیں اس لئے اللہ نے کہا ہاں بے شک ایمان داروں کو دوں گا اور ان کے سوا کافروں کو بھی دنیا میں کسی قدر نفع مند کروں گا پھر اس کے بعد ان کو عذاب میں پھینکوں گا جو بہت ہی بری جگہ ہے یہ سن کر ابراہیم ( علیہ السلام) بہت خوش ہوا اور اپنے کام میں مشغول رہا با لکل کسی طرح سے اس کے دل میں کوئی ایسی بات نہ آئی تھی جو اخلاص سے خالی ہو اور سنو ! جب ابراہیم ( علیہ السلام) اور اس کا بیٹا اسمٰعیل ( علیہ السلام) کعبہ کی بنیاد بحکم ربّانی اٹھا رہے تھے تو اس وقت بھی یہی کہتے تھے اے ہمارے مولا تو ہم سے اس کار خیر کو قبول کر اسلئے کہ تو ہی ہماری باتیں سننے والا ہے اور ہمارے دل کی آرزوئیں جانتا ہے پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اپنی ترقی درجات کے لئے ہمیشہ دست بدعا رہے کہ ہمارے مولا ہم کو اپنا فرمانبردار بندہ بنا نہ صرف ہم کو بلکہ ہم کو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو ضرور ہی اپنا تابعدار کیجیے اور اے ہمارے مولا چونکہ ہم تیرے عاجز بندے ناقص العقل تیری رضا خود بخود دریافت نہیں کرسکتے جب تک تو ہی اپنی مرضی پر مطلع نہ کرے اس لئے ہم عرض پرداز ہیں کہ تو ہم کو ہماری عبادت کے طریقے بتلا اور اگر اس بتلائے ہوئے میں کسی طرح کا ہم سے قصور واقعہ ہو تو ہم پر رحم فرما اس لئے کہ تو ہی ہے بڑا رحم کرنے والا مہربان۔ یہ دونوں باپ بیٹا نیک کاموں میں کچھ ایسے حریص تھے کہ علاوہ مذکو رہ بالا دعا کے آئندہ کو بھی اپنی اولاد کے لئے درخواست کرتے رہے کہ اے میرے ہمارے مولا ! چونکہ بغیر کسی ھادی کے انسان کا ہدائت یاب ہونا مشکل امر ہے اس لئے گزارش ہے کہ تو ان لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھی پیدا کیجیو جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور تیری کتاب آسمانی کے احکام اور نیک اخلاق ان کو سکھلاوے اور اپنی صحبت موثرہ میں ان کو اخلاق رویہ مثل شرک کفر حسد بغض کینہ کبر وغیرہ سے پاک صاف کرے تو تو ایسے بہت سے کام کرسکتا ہے بے شک تو ہر کام پر غالب ہے جو چاہے سو کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے بڑی حکمت والا بھی ہے جس کسی کو اس خدمت کے لائق سمجھے گا معمور کرے گا۔ (ایک رسول پیدا کیجیو) اس آیت میں اللہ نے سید الانبیاء محمد مصطفیٰ علیہ وعلیٰ آلہ التحیۃ کی نبوت کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس بات کا ثبوت کہ آپ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں محتاج دلیل نہیں کل دنیا کے لوگ یہود نصارٰے اہل اسلام اس پر متفق ہیں کہ آپ بلکہ آپ کا تمام خاندان قریش بلکہ قریب قریب کل عرب حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی اولاد ہیں اور اسمٰعیل ابراہیم علیہما السلام کے بڑے بیٹے تھے جن کے حق میں تورٰیت سے بھی اتنی شہادت ملتی ہے :۔ ” اور ہاجرہ ابرہام کے لئے بیٹا جنی اور ابرہام نے اپنے بیٹے کا نام جو ہاجرہ جنی اسمٰعیل رکھا۔ اور جب ابرہام کے لئے ہاجرہ سے اسمٰعیل پیدا ہوا تب ابرہام چھیاسی برس کا تھا۔“ (پیدائش ١٦ باب ١٨ آیت) اسی کتاب کی دوسری جگہ لکھا ہے :۔ ” اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے حق میں (اے ابراہیم ( علیہ السلام) میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دوں گا۔ اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھائوں گا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بنائوں گا“ (١٧ باب ٢٠ آیت) پس عبارت مذکورہ بالا تورات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ( علیہ السلام) ابراہیم ( علیہ السلام) کے نہ صرف بیٹے بلکہ موعود بالبرکت تھے گو یہ واقع بناء کعبہ تو تورٰیت میں مصرح مذکور نہیں اور اس کے مذکور نہ ہونے کی وجہ شائد وہی ہے جس کا مفصل ذکر ہم عیسائیوں کی پہلی غلطی کی ذیل میں کر آئے ہیں لیکن اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم ( علیہ السلام) کو اپنے بیٹے اسمٰعیل ( علیہ السلام) کے لئے بہت کچھ خیال تھا۔ جس کے جواب میں ارشاد باری پہنچا کہ میں نے تیری سنی۔ خاندان نبوت اور سلسلہ رسالت بلکہ عام اہل اللہ کے حالات دیکھنے سے بھی اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ایسے موقعہ پر دنیاوی برکت اور ظاہری کثرت تعداد سے خوش نہیں ہوا کرتے جب تک کہ ان کی اولاد میں سے بڑھ کر کوئی پیدا نہ ہو پس ان وجوہ کے لحاظ سے الفاظ قرآن اور تورٰیت دونوں متفق ہیں کہ اسمٰعیل ( علیہ السلام) کی اولاد سے کوئی نبی ہونا چاہیے جس سے ان کی اولاد کو بابرکت کہا جائے پس وہ نبی وہی ہے جو سیّد ولد اٰدم ولا فخر کا مصداق ہے بیشک سچ ہے ؎ ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویداَ دعائے خلیل اور نوید مسیحا