وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب آپ کے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود اپنے اوپر گواہ بنا کر پوچھا : ’’ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں؟‘‘ وہ (ارواح) کہنے لگیں : ’’کیوں نہیں! [١٧٥] ہم یہ شہادت دیتے ہیں‘‘ (اور یہ اس لیے کیا) کہ قیامت کے دن تم نہ کہنے لگو کہ ہم تو اس بات سے بالکل بے خبر تھے
(172۔188) اور سنو ! ہم نے بنی آدم کی ہدایت کے لئے شروع ہی سے انتظام کر رکھا ہے وہ وقت یاد کرو جب تیرے پروردگار نے آدم اور بنی آدم کی ذریت ان کی صلب سے نکالی اور انہیں کو گواہ بنایا سوال یہ تھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ وہ بیک زبان بولے کہ ہاں بیشک تو ہمارا پروردگار ہے ہم اس امر کے گواہ ہیں دنیا میں جتلانے سے بھی یہی غرض ہے کہ کہیں قیامت کے روز نہ کہنے لگو کہ ہم اس سے غافل تھے ہمیں تو کچھ خبر ہی نہ تھی یا نہ کہنے لگو کہ شرک تو ہمارے باپ دادوں نے پہلے ہی کیا اور وہی اس فعل قبیح کے بانی مبانی تھے اور ہم تو ان کے بعد دنیا میں پیدا ہوئے پھر کیا تو ہم کو دوسرے غلط کاروں کی غلط کاری سے تباہ اور برباد کرتا ہے اسی طرح ہم احکام کی تفصیل کرتے ہیں تاکہ یہ تیری قوم کے لوگ ہماری طرف رجوع ہوں۔ اور اگر اس سے بھی ہدایت یاب نہ ہوں اور دنیا کے ایچ پیچ ہی میں پھنسے رہیں تو ان کو اس دنیا دار یعنی فرعون ١ ؎ کا قصہ سنا جس کو ہم نے اپنے احکام دئیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت ہدایت پہنچائی پھر بھی وہ اپنی شرارت سے باز نہ آیا بلکہ ان حکموں سے صاف ہی نکل گیا۔ بالکل کان بھی اس نے نہ جھکائے اس آیت کے متعلق مفسرین کے مختلف اقوال ہیں کہ یہ کون شخص ہے ان سب میں سے عجیب تر قول یہ ہے کہ ایک شخص بلعم بن باعورا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وقت میں تھا۔ حضرت موسیٰ کے مخالفوں کے کہنے سننے سے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کے حق میں اس نے بددعا دی جس سے ان کی فتح سے شکست ہوگئی جس کی وجہ حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ تعالیٰ سے دریافت کی تو ارشاد اللہ تعالیٰ پہنچا کہ بلعم بن باعورا نے جو ایک مستجاب الدعوات شخص ہے تمہارے حق میں بددعا کی ہے اس لئے تمہاری فتح سے شکست ہوگئی۔ یہ سن کر حضرت موسیٰ نے اس کے حق میں بددعا کی جس کا اثر یہ ہوا کہ کہیں تو ایسا مستجاب الدعوات تھا۔ اس بددعا کی تاثیر سے آخر بے ایمان ہو کر مرا۔ یہ قول عجیب تر اس لئے ہے کہ موجودہ توریت سے جس سے زیادہ تر معتبر حضرت موسیٰ کے حالات بتلانے والی بعد قرآن شریف کے کوئی تاریخ نہیں اس قصہ کے برعکس ثابت ہوتا ہے۔ توریت کی چوتھی کتاب گنتی کے باب ٢٢ سے ٢٤ تک دیکھنے سے اس قصہ کی تکذیب ہوتی ہے وہاں صریح مرقوم ہے کہ ” موابیوں کے بادشاہ بلق نے ہرچند بلعم سے حضرت موسیٰ کے خلاف دعا کرانی چاہی بہت کچھ طمع اور لالچ بھی دیا مگر اس بندہ اللہ تعالیٰ نے ہرگز بنی اسرائیل کے خلاف دعا نہ کی بلکہ برکت کی نیک دعا اس کے سامنے کی چنانچہ بادشاہ بلق اس سے سخت ناراض ہوا مگر وہ یہی کہتا رہا کہ میں تو وہی کہوں گا جو اللہ تعالیٰ میرے منہ میں ڈالے گا۔“ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس قصہ کو فرعون کی طرف لگایا ہے کیونکہ بنی اسرائیل کو فرعون کا قصہ سنانا ایک طرح مناسبت بھی رکھتا ہے اس آیت میں اٰتَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا آیا ہے تو دوسری جگہ فرعون کے حق میں اَرَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی فرمایا ہے۔ دونوں کا مطلب ایک ہی ہے۔ اور اگر اہل دل کے مذاق پر اس آیت کی تفسیر کی جائے تو یہ ایک تمثیل ہے دنیا دار عالموں کی جو زمین یعنی زمینی مال کی طرف جھکتے ہیں اور علم سے صاف بے لوث نکل جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اَلَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰیتَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا انہی معنے کی طرف اشارہ ہے شیخ سعدی مرحوم نے کیا سچ فرمایا ہے علم چند انکہ بیشتر خوانی چوں عمل در تو نیست نادانی نہ محقق بود نہ دانشمند چار پایہ برو کتابے چند ١٢ (منہ) پس اس شرارت اور خباثت کی پاداش اس کو یہ ملی کہ شیطان ہمہ تن اس کے پیچھے پڑگیا۔ یہاں تک کہ جو چاہتا اس سے کروا لیتا پس انجام کار وہ سخت راہ بھولوں میں جا ملا اور اگر ہم چاتے۔ تو باوجود ان کی گردن کشی کے ان احکام کے ساتھ اس کو بلند رتبہ کرتے وہ ان پر عمل کرتا اور درجے پاتا لیکن چونکہ اس نے خود ہی پستی میں گرنا چاہا اور اپنی خواہش نفسانی کے پیچھے لگا تو ہم نے بھی اسے چھوڑ دیا پس اس کی مثال اس ذلیل کتے کی سی ہے جس پر تو بوجھ لادے تو ہانپتا ہے۔ اور اگر چھوڑ دے تو بھی ہانپتا ہے اسی طرح اس کی حالت دونوں جہانوں کی زندگی میں ہوئی دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر مرا آخرت میں النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا اس کی شان میں وارد ہے۔ یہ ذلت اور خواری کی تمثیل کچھ اسی سے مخصوص نہیں بلکہ اس قوم کی ہے جو ہمارے حکموں سے منکر ہوں پس تو ان کی ہدایت کے لئے قصے بتلایا کرتا کہ یہ کم بخت کچھ فکر کریں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جو لوگ ہمارے حکموں سے منکر ہیں اور اپنے بھائی بندوں پر ظلم کرتے ہیں بداخلاقی سے پیش آویں ان کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ہی بری ہے اصل عزت اور آبرو تو ہدایت اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنی راہ پر لگائے اور اس کے اعمال صالحہ قبول فرمائے وہی ہدایت یاب ہے اور جن کو وہ اپنی جناب سے دھکیل دے اور راہ راست سے پھینک دے وہی نقصان والے اور زیاں کار ہیں بہت سے جن اور انسان جن کو ہم نے بحواس خمسہ پدٰا کیا مگر فطرت اللہ تعالیٰ کو بگاڑ کر بدصحبتوں سے ایسے متاثر ہوئے ہیں کہ دیکھنے والا یہی سمجھے گا کہ جہنم کے لئے ہی ہم نے بنائے ہیں کیونکہ بظاہران کے سینوں میں دل ہیں پر ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں پر وہ ان سے حق و باطل دیکھتے نہیں اور ان کے سروں پر کان ہیں پر وہ ان سے ہدایت کی باتیں سنتے نہیں خلاصہ یہ کہ وہ حماقت میں گویا مثل چارپائوں کے ہیں بلکہ چارپائوں سے بھی گئے گذرے کیونکہ چارپائے اپنے فرائض کو پہچانتے ہیں۔ کتے کو دیکھو اپنے مالک کے مال کی ایسی حفاظت کرتا ہے کہ جان تک بھی دینے کو تیار ہوتا ہے اور یہی لوگ اپنے فرائض سے غافل ہیں کچھ نہیں سوچتے کہ ہمارا انجام کیا ہوگا پس ان کی بدکاری اور غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ دیکھنے والا ان کو جہنم کی پیدائش کہے تو بجا ہے ان کی کجروی کئی طرح کی ہے ایک تو بداخلاقی سے مخلوق میں فساد ڈالتے ہیں دویم اللہ تعالیٰ کی صفات میں اپنی من گھڑت باتوں سے یعنی جو صفات حسنہ اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں وہ اوروں پر بولتے ہیں خواہ اپنی زبان میں ہوں یا غیر میں۔ مخلوق کو دستگیر۔ داتا۔ گنج بخش وغیرہ کہتے ہیں۔ حالانکہ سب نیک صفات کے نام اللہ تعالیٰ سے مخصوص ہیں۔ پس تم مسلمانو ! ان ناموں سے اس کو پکارا کرو اور جو بےدین لوگ اس کے ناموں میں کجروی کرتے ہیں اس کے نام اپنے پاس سے من گھڑت بولتے ہیں یا اس کے نام اوروں پر اطلاق کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو وہ اپنے کئے کی سزا پائیں گے اور ہماری مخلوق میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو ان کجروئوں کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ لوگوں کو حق بات کی بے لاگ ہدایت کرتے ہیں اور خود بھی اسی حق کے مطابق عدل و انصاف کرتے ہیں اور جو لوگ ہمارے حکموں سے منکر ہیں ہم ان کو بتدریج ایسے راستہ سے جسے وہ نہیں جانتے جہنم کی طرف گھسیٹیں گے یعنی وہ ایسے کام کریں گے۔ کہ جہنم میں جانے کا سبب ہوں گے اور اب تو میں (اللہ) ان کو قدرے ڈھیل دے رہا ہوں یقینا سمجھ کہ میرا دائو بڑا ہی مضبوط ہے یہ جو نبی کی تکذیب پر کمر بستہ ہو رہے ہیں کیا یہ فکر نہیں کرتے کہ ان کا ہم صحبتی محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم مجنون تو نہیں کہ بلاوجہ ان کی ہر بات میں مخالفت کرتا ہے اگر غور کریں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ عذاب الٰہی سے کھلم کھلا ڈرانے والا ہے اور بس۔ کیا یہ لوگ آسمانوں اور زمینوں کے انتظام اور حکومت میں اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں غور و فکر نہیں کرتے اور یہ بیر نہیں سوچتے کہ شاید ان کی اجل اور موت قریب ہی آلگی ہو اور بعدالموت ان پر کیا کچھ گذرے گا۔ پھر اس سچی تعلیم کو چھوڑ کر کس بات کو باور کریں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ ہی اپنی جناب سے دھتکار دے اس کے لئے کوئی راہ نما نہیں ہوسکتا۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو ان کی سرکشی میں حیران چھوڑ دیتا ہے حیران و پریشان ہیں بطور مسخری و استہزاء تجھ سے قیامت کی بابت پوچھتے ہیں کہ کب ہوگی تاریخ بتلائو تو جواب میں کہہ کہ اس کی خبر صرف میرے پروردگار کو ہے۔ وہی مناسب وقت میں اسے ظاہر کرے گا ہاں یہ بتلائے دیتا ہوں کہ اس کا خوف اتنا ہے کہ تمام آسمان والوں اور زمین والوں پر دہشت ناک ہے۔ اچانک ہی تم پر ظاہر ہوجائے گی تجھ سے تو اس طرح پوچھتے ہیں (شان نزول (یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ) قریشیوں نے استہزائً آں حضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کا اور ہمارا تعلق رشتہ کا ہے قیامت کے آنے کی ہمیں تاریخ تو بتلا دے تاکہ ہم اس کے آنے سے پہلے ہی خبردار ہوجائیں۔ ان کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی (معالم) گویا تو اس کی ٹوہ میں ہے۔ اور تجھے اس کی تاریخ ہی سے بحث مباحثہ ہے۔ تو پھر کہہ دے اس کی خبر تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہے میں اس سے مطلع نہیں۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ جو شخص کسی علم کا دعویدار نہ ہو اس سے اس کی بابت سوال کرنا سراسر حماقت ہے۔ اے ہمارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تو یہ بھی ان سے کہہ دے میں تمام لوازمات بشریہ میں تمہاری طرح ہوں اللہ تعالیٰ کے کاموں میں میں ایسا ہی بےدخل ہوں جیسے تم۔ سرکاری کاغذات میں غلاموں کا کیا دخل۔ میں تو اپنے نفس کے لئے بھی جلب نفع اور دفع ضرر کا اختیار نہیں رکھتا۔ ہاں جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنا بہت سا بھلا اور فائدہ کرلیتا اور مجھے کبھی تکلیف نہ پہنچتی۔ تکلیف کے پہنچنے کا سبب عدم علم ہی ہوا کرتا ہے مالی اور بدنی وغیرہ جتنے نقصان ہوتے ہیں سب اس لئے ہوتے ہیں کہ انسان کو ان کا حال معلوم نہیں۔ ورنہ جس شخص کو یہ معلوم ہو کہ فلاں تجارت میں مجھے نقصان ہے۔ وہ اس تجارت میں کیوں ہاتھ ڈالے گا۔ ایسا ہی جس کو معلوم ہو کہ فلاں چیز کا کھانا مجھے مضر ہوگا وہ کیوں کھانے لگا (اس آیت نے صاف فیصلہ کردیا ہے کہ پیغمبروں کو علم غیب مطلقاً نہیں ہوتا جس قدر اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے اسی قدر وہ جانتے ہیں فقہاء حنفیہ نے اس بات کی تصریح کردی ہے کہ جو شخص کسی معاملہ میں رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو گواہ کرے وہ کافر ہے کیونکہ اس نے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب ہونا اعتقاد کیا (دیکھو فتاویٰ قاضی خان) مگر افسوس کہ مسلمان اس ایمانی مسئلہ سے بھی ناواقف ہیں کہ انبیاء تو بجائے خود اولیاء کے لئے بھی غیب دانی سمجھ بیٹھے ہیں شیعوں کی معتبر کتاب کلینی کی کتاب العلم میں مصنف کتاب نے باب تجویز کیا ہے ائمہ اہلبیت کو علم غیب ما کان اور مایکون گذشتہ اور آئندہ سب کا تھا نعوذ باللہ تعالیٰ من الھفوات انہی کی تبعیت میں نام کے سنیوں نے غیب دانی کا عقیدہ مشائخ کی نسبت سیکھا ہے قرآن شریف ان سب باتوں کا رد کرتا ہے۔ صریح نص جیسی اس باطل خیال کے رد میں ہے کسی دوسرے مسئلہ میں شائد ہی ملے شیخ سعدی مرحوم نے کیا ہی ٹھیک کہا ہے کسے پر سید ازاں گم کردہ فرزند کہ اے روشن گہر پیر خردمند زمصرش بوئے پیراہن شنیدی چرا در چاہ کنعانش ندیدی بگفت احوال ما برق جہان ست دمے پیدا و دیگر دم نہان ست گہے برطارِم اعلیٰ نشینیم کہے برپشت پائے خود نہ بینیم سچ ہے لَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَ سْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَماَ مَسَّنِیَ السُّوٓئُ (منہ) میں تو صرف بدکاریوں پر ڈرانے والا اور ایمانداروں کو خوش خبری سنانے والا ہوں