سورة الاعراف - آیت 42

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

البتہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور ہم ہر شخص کو اس کی [٤١] طاقت کے مطابق ہی مکلف بناتے ہیں، تو یہی لوگ اہل جنت ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہا کریں گے

تفسیر ثنائی - ثنا اللہ امرتسری

(42۔58) اور جو لوگ ایمان لائے اور بعد ایمان عمل صالح کرتے رہے۔ جس قدر ان سے ہوسکا کیونکہ ہم کسی نفس کو اس کی ہمت سے بڑھ کر حکم نہیں دیتے کہ ایک غریب آدمی کو جس کا اپنا ہی گذارہ بصد مشکل چلتا ہو سینکڑوں ہزاروں کی خیرات کا حکم دیں بلکہ اس کی حسب حیثیت ہی بتلایا کرتے ہیں۔ پھر جو لوگ حسب حیثیت ہدایت پر عمل کریں وہی جنتی ہیں۔ وہی اس جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور ہم ان کو علاوہ اور نعمتوں اور آسائشوں کے یہ بڑی نعمت دیں گے کہ دنیا کی باہمی کدورتوں سے ان کے سینے صاف کردیں گے جنت میں ایسے ایک دل ہو کر رہیں گے کہ رنجش اور کدورت کا نام و نشان بھی نہ ہوگا ان کے مکانوں کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی بڑے مزے میں مہذبانہ زندگی گذاریں گے اور خوشی میں کہیں گے کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کو ہیں جس نے ہم کو اس کام کی راہ نمائی کی تھی اور اگر اللہ تعالیٰ ہم کو ہدایت نہ کرتا تو ہم کبھی بھی راہ نہ پا سکتے ہمارے پروردگار کے رسول سچی تعلیم اور سچے وعدے لے کر آئے تھے جن کا یہ نتیجہ ہوا کہ آج ہم اس عیش میں گذار رہے ہیں اور ان کو ایک پکار آئے گی کہ یہ جنت تمہارے نیک عملوں کے عوض میں محض فضل الٰہی سے تم کو ملی ہے لو اس میں اب ہمیشہ رہو اور کبھی ایسا بھی ہوگا کہ دل لگی کرنے کو جنت والے جہنم والوں کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ہم سے جو اللہ تعالیٰ نے نیک عملوں پر وعدہ فرمایا تھا ہم نے تو اسے درست پایا۔ کیا تم نے بھی بدکاریوں پر اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو ٹھیک پایا ہے یا نہیں وہ دوزخ والے کہیں گے ہاں بیشک ہماری بھی بری گت ہو رہی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے ہماری کوئی سفارش کرو۔ اہل جنت کے دلوں میں کسی طرح کی رقت اور مہربانی ہونے کو ہوگی کہ اتنے میں ایک پکارنے والا پکار دے گا کہ ان ظالموں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے لوگوں کو روکتے تھے اور اس میں بے جا اعتراضات کرنے کو کجی سوچا کرتے تھے۔ اور جو کچھ کرتے تھے محض اپنے مشن کو راضی کرنے کے واسطے کرتے تھے ورنہ دراصل یہ آخرت کی زندگی سے منکر تھے تم ان پر رحم کا خیال نہ کرو پس وہ پیچھے ہٹ رہیں گے اور ان دونوں طریقوں کے درمیان ایک روک ہوگی جس سے ایک فریق دوسرے فریق کی اوٹ میں ہوجائے گا۔ اور اعراف پر یعنی جنت دوزخ کی درمیانی دیوار پر چند لوگ ہوں گے جن کو ہنوز داخلہ جنت کا حکم نہ ہوا ہوگا وہ ہر ایک فریق کو نشانوں سے پہچانیں گے مسلمانوں کو ان کی پیشانیوں کی سفیدی سے اور کافروں کو ان کی تیرگی اور سیاھی سے اور جنت والوں کو بڑے ادب اور تعظیم سے سلام علیکم کہہ کر پکاریں گے خود ابھی تک داخل جنت نہ ہوئے ہوں گے مگر امیدوار ضرور ہوں گے اور جب ان کی نظر بائیں طرف دوزخیوں پر کہیں جا پڑے گی تو ان کی بری حالت دیکھ کر بے چارے جھٹ سے کہیں گے اے ہمارے مولا ! تو ہم کو ان ظالموں کی قوم کے ساتھ نہ کیجیو ! اور اعراف والے یعنی وہ لوگ جو بسبب کمی اعمال نیک کے ہنوز جنت میں نہ گئے ہوں گے دوزخیوں کو بھی جن کو ظاہری متکبرانہ نشانوں سے پہچانتے ہوں گے بلا کر کہیں گے نہ تو تمہارے جتھے اور نہ حمایتی کچھ کام آئے اور نہ تمہارا وہ زور اور مال جس کی وجہ سے تم شیخیاں بگھارا کرتے تھے۔ ذرا دیکھو تو یہی غریب لوگ ہیں جن کے حق میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں جو ہمارا دست نگر کر رکھا ہے آخرت میں بھی انکو رحمت الٰہی سے بہرہ ور نہ کرے گا۔ لو تم تو یہیں آگ میں پھنسے جھلس رہے ہو اور ان کو اجازت ہوچکی ہے کہ جنت میں داخل ہوجائو نہ تم پر خوف ہے اور نہ تم کسی بات سے غمگین اور رنجیدہ ہو کے اس بات کو سن کر جنتی تو خوش ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا شکر کریں گے اور جہنمی اپنی دنا کی صاحب سلامت جتلا کر جنتیوں سے کہیں گے ہم تو جلے جا رہے ہیں اللہ تعالیٰ ا ہم پر قدرے پانی تو ڈالو۔ یا جو اللہ تعالیٰ نے تم کو رزق کی فراغت اور آرام دیا ہوا ہے اس میں سے کچھ ہم کو عنایت کرو۔ جنتی کہیں گے ہم مجبور ہیں اللہ تعالیٰ نے کافروں سے یہ دونوں نعمتیں روک رکھی ہیں اور ہمیں منع فرما دیا ہے اس لئے ہم ان میں سے تم کو کچھ دے نہیں سکتے۔ کون کافر؟ جنہوں نے اسلام کے متعلق اپنا طرز عمل ہنسی اور کھیل بنا رکھا تھا جو کچھ منہ پر آتا کہتے جو دل میں آتا کرتے۔ نہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہ رسول کی اجازت جیسے ہندوستان کے ہندو جو ہولیوں اور دسہرا کے ایام میں تمام زمانہ کی بدکاریاں کریں اور ان کو دین سمجھیں اور تعزیہ دار مسلمان جو نہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں نہ رسول سے شرم کرتے ہیں بلکہ صرف اپنی من مانی باتوں پر چلتے ہیں اور دنیا کی زندگی اور عیش و عشرت سے فریب کھائے ہوئے ہیں پس ان کی سزا بھی یہی ہے کہ ہم (اللہ) ان کو اس روز دوزخ میں دانستہ ایسے بھول جائیں گے یعنی عذاب میں مبتلا رکھیں گے گویا بھولے ہوئے ہیں جیسے یہ اس دن کے پیش آنے کو دنیا میں بھولے ہوئے ہیں اور جس طرح ہمارے حکموں سے انکار کرتے ہیں اب تو ان کی اس غفلت کا کوئی بھی عذر نہیں رہا۔ رسول آچکا ہے اور ہم نے ان کے پاس کتاب بھی پہنچا دی جس کو ہم نے یوں ہی مجمل نہیں چھوڑا بلکہ بڑی سمجھ بوجھ سے اس کو مفصل بیان کردیا اور وہ ماننے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے اور منکروں کے حق میں ہلاکت اور خسارت اب یہ تیرے منکر تو صرف اس کے انجام کے منتظر ہیں کہ کون سا روز ہو کہ قرآن کی بتلائی ہوئی خبروں کے مطابق جزا سزا کا میدان قائم ہو۔ مگر یہ بھی سن رکھیں کہ جس دن اس کا انجام آبھی پہنچا تو جو لوگ اس انجام کو پہلے سے بھولے بیٹھے ہوں گے عذاب کو دیکھ کر صاف کہیں گے۔ ہائے ہم غفلت میں رہے ہمارے پروردگار کے رسول سچی تعلیم لے کر ہمارے پاس آئے تھے مگر ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ پس کوئی ہے کہ اس اڑے وقت میں ہمارا سفارشی ہو۔ کہ ہماری سفارش کرے کہ ہمارے عذاب میں تخفیف ہو یا ہم کو پہلی زندگی میں لوٹا دیا جائے کہ ہم پہلے کئے کے خلاف نیک عمل کریں اور اس بلا سے چھوٹیں اس روز سب کو واضح ہوجائے گا کہ بیشک انہوں نے اپنا آپ نقصان کیا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ پر افترا پردازیاں کیا کرتے تھے وہ سب ان کو بھول گئیں۔ بتلائو وہ کیسا دن ہوگا اور کون ان کا حمایتی بنے گا اللہ تعالیٰ پر شرک اور اُبُوَّۃ کے الزام لگانے والو باز آئو اب بھی سمجھ جائو ادھر ادھر غیر معبودوں کے پاس نہ بھٹکتے پھرو۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا پالنہار ایک ہی معبود ہے جس کا نام پاک اللہ تعالیٰ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ روز کی مدت میں پیدا کیا پھر تخت پر بیٹھا یعنی ان پر حکمران ہوا۔ سب کچھ اسی کے قبضہ میں ہے حتیٰ کہ دن کی روشنی کو رات کی ظلمت سے بھی وہی ڈھانپتا ہے دن رات ایک دوسرے کے پیچھے چپکے چپکے گویا تلاش میں لگے ہوئے ہیں سورج چاند اور ستاروں کو اسی نے اپنے حکم سے پیدا کر کے کام میں لگا رکھے ہیں لوگو ! سن رکھو اسی اللہ واحد نے سب کچھ بنایا ہے اور اسی کا سب اختیار ہے پھر تم کہاں کو جاتے ہو۔ اور کس سے مانگتے ہو؟ کیا تم نے نہیں سنا وہ مالک ہے سب آگے اس کے لاچار نہیں ہے کوئی اس کے گھر کا مختار وہ کیا ہے جو نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ سے جسے تم مانگتے ہو اولیاء سے یاد رکھو سب اسی کے محتاج ہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی بابرکات ہے جو سب جہان والوں کا پالنہار ہے۔ بس تم غیروں سے ڈرنا اور مانگنا چھوڑ دو۔ اور اپنے رب ہی سے گڑ گڑا کر چپکے چپکے مانگا کرو پس یہی تمہاری بندگی کی حد ہے کہ انسانی طاقت سے بالا جو حاجت چاہو وہ اسی سے مانگو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ اس حد سے گزرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ (اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ) کے جو معنی ہم نے کئے ہیں۔ نئے نہیں عربی محاورہ ہے کہ جب کوئی بادشاہ زمام سلطنت اپنے ہاتھ میں لے اور رعیت پر فرمان شاہی جاری کرے تو کہا کرتے ہیں استوی الملک علی العرش او علے السریر یعنی بادشاہ حکمران ہوا سلطان العلماء شیخ الاسلام ابو محمد عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام جو چھٹی صدی ہجری میں مصر کے نامور علماء سے ہوئے ہیں۔ اپنی کتاب الاشارۃ الی الایجاز فی بعض المجاز میں لکھتے ہیں السادس عشر استواءہ وھو مجاز عن استیلاءہ علے ملکہ وتدبیرہ ایاہ قد استوی بشر علے العراق من غیر سیف و دم مھراق وھو مجاز التمثیل فان الملوک یدبرون مما لکھم اذا جلسوا علے اسرتھم ص ١١٠ یعنی استوی علی العرش کا جملہ مجاز ہے ان معنی میں کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں پر حکمران ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس جیسی اور آیات صفات کے متعلق ایک عام قانون بتایا ہے کہ ان کے لغوی معنی جاننے کا ہم کو حق حاصل ہے چنانچہ شیخ ممدوح کی عبارت یہ ہے : قال ابن عباس (رض) لیس فی الدنیا مما فی الجنۃ الا الاسماء وھذا تفسیر قولہ اتوابہ متشابھا علٰے احدالاقوال فبین ھذہ الموجودات فی الدنیا وتلک الموجودات فی الاخرمشابھۃ وموافقۃ واشتراک من بعض الوجوہ وفھمنا المراد واجبناہ ورغبنا فیہ وبینہما مباینۃ ومفاصلۃ لا یقدر قدرھا فی الدنیا وھذا من التاویل الذی لا نعلمہ نحن بل یعلمہ اللہ تعالیٰ تعالیٰ ولھذا کان قول من قال ان المتشابہ لا یعلم تاویلہ الا اللہ تعالیٰ حقا وقول من قال ان الراسخین فی العلم یعلمون تاویلہ حقا وکلا القولین ماثور عن السلف من الصحابۃ والتابعین لھم باحسان فالذین قالوا انھم یعلمون تاویلہ مرادھم بذلک انھم یعلمون تفسیرہ ومعناہ والافھل یحل لمسلم ان یقول ان النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ماکان یعرف معنے مایقولہ وما یبلغہ من الایات و الاحادیث بل کان یتکلم بالفاظ لایعرف معانیھا ومن قال انہم لا یعرفون تاویلہ ارادوا بہ الکیفیۃ الثابتۃ التی اختص اللہ تعالیٰ بعلمھا ولھذا کان السلف کربیعۃ ومالک بن انس و غرلھا یقولون الاستواء معلوم والکیف مجھول وھذا قول سائر السلف کابن الماجثون والامام احمد بن حنبل وغیرھم و فی غیر ذلک من الصفات فمعنے الاستواء معلوم وھو التاویل التفسیر الذی یعلمہ الراسخون والکیفیۃ ھو التاویل لبنی ادم وغیرھمالذی لا یعلمہ الا اللہ تعالیٰ وکذلک ما وعد بہ فی الجنۃ تعلم العباد تفسیر ما اخبر اللہ تعالیٰ بہ واما کیفیتہ فقد قال اللہ تعالیٰ تعالیٰ فلا تعلم نفس ما اخفی لہم من قرۃ اعین جزاء بما کانوا یعملون و قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فی الحدیث الصحیح بقول اللہ تعالیٰ تعالیٰ اعددت لعبادی الصالحین مالا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر فما اخبرنا اللہ تعالیٰ بہ من صفات المخلوقین۔ نعلم تفسیرہ ومعناہ ونفہم الکلام الذی خوطبنا بہ ونعلم معنے العسل واللحم واللبن والحریر والذھب والفضۃ ونفرق بین مسمیات ھذہ الاسماء واما حقا ئقھا علٰے ماھی علیہ فلا یمکن ان نعلمہ نحن ولا نعلم حتی تکون الساعۃ (شرح حدیث النزول ص ١٣) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ دنیا کی نعمتوں اور جنت کی نعمتوں میں صرف نام کی مشابہت ہے اور یہی معنے ہیں اللہ تعالیٰ کے اس قول کے واتوابہ متشابھا پس ان دنیاوی نعمتوں اور اخروی نعمتوں میں مشابہت اور اشتراک بعض وجوہ سے ہے اسی وجہ سے تو ہم نے مراد کو سمجھا ہے اور پسند کیا ہے اور ان کی خواہش کرتے ہیں ورنہ دراصل ان میں بہت بڑا فرق ہے جس کا اندازہ دنیا میں نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ تاویل ہے جس کو ہم نہیں جانتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے (یعنی جنت کی نعمتوں کی حقیقت کا معلوم کرنا خاصہ الٰہی ہے) اسی واسطے جو لوگ کہتے ہیں کہ متشابہات کے معنے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ان کا قول حق ہے۔ اور جو کہتے ہیں کہ علماء راسخین ان کے معنے جانتے ہیں ان کا قول بھی حق ہے اور دونوں قول سلف صالحین۔ صحابہ۔ تابعین اور تبع تابعین سے نقل ہیں (پھر اس کی تفصیل کرتے ہیں کہ) جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم آیات متشابہات کے معنے سمجھتے ہیں ان کی مراد اس سے لغوی ترجمہ اور لفظی تفسیر ہے ورنہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان یہ کہے۔ کہ حضرت پیغمبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جن آیات اور احادیث کی لوگوں کو تبلیغ کرتے تھے ان کا ترجمہ بھی نہ سمجھتے تھے؟ بلکہ ایسے مہمل الفاظ بولتے تھے جن کے معنے وہ خود بھی نہ سمجھتے ہوں؟ ( ہرگز ایسا نہ ہوسکتا) اور جو لوگ کہتے ہیں کہ علماء راسخین بھی ان آیات کی تفسیر نہیں جان سکے ان کی مراد اس سے وہ کیفیۃ مخصوصہ ہے جو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے (نہ کہ لغوی اور لفظی ترجمہ جو ہر ایک سمجھ سکتا ہے) اسی واسطے سلف صالحین مثل ربیعہ اور امام مالک وغیرہ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا استوا تو معلوم ہے مگر کیفیت اس کی مجہول ہے۔ تمام سلف صالحین مثل ابن الماجثون اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کا صفات باری میں یہی مذہب ہے (کہ استوا وغیرہ کے لغوی معنے مان کر کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں) پس استواء کے معنے معلوم ہونے کا یہ مطلب ہے کہ جو تاویل اور تفسیر اس کی علماء راسخین جانتے ہیں (یعنی لغوی اور لفظی ترجمہ وہ معلوم ہوسکتا ہے اور کیفیت مجہولہ سے وہ تاویل مراد ہے جو تمام بنی آدم سے مجہول ہے) جس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ (نہ کہ لغوی ترجمہ) اسی طرح جن نعمائے جنت کے ہم کو وعدے دئیے گئے ہیں بندوں کو ان کی تفسیر یعنی لغوی ترجمہ جو اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے معلوم ہے (مثلاً وہ جانتے ہیں کہ انار کے یہ معنی ہیں۔ مگر کیفیت ان کی اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے چنانچہ ارشاد ہے کہ بندوں کے لئے جو نعمتیں مخفی ہیں ان کو کوئی نہیں جان سکتا۔ اور آں حضرت نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے لئے وہ نعمتیں تیار کی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی بشر کے دل پر گذریں پس جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ہم کو مخلوق کی صفات بتلائی ہیں۔ اس کو تو ہم جانتے ہیں اور جس کلام سے ہم کو مخاطب کیا گیا ہے اس کو ہم بخوبی سمجھتے ہیں اور شہد۔ گوشت۔ دودھ۔ ریشمی لباس سونا اور چاندی وغیرہ کے معنے جن کے ملنے کا ہم کو وعدہ دیا گیا ہے ہم جانتے ہیں اور ان کے مصداق میں تمیز کرسکتے ہیں انار کو آم سے الگ اور خربوزہ کو تربوز سے جدا جانتے ہیں) لیکن ان کی اصل حقیقت کا ہم کو علم حاصل ہونا ممکن نہیں اور جب تک قیامت نہ قائم ہو۔ ہم اس کو جان نہیں سکتے۔ “ شیخ ممدوح نے اس کلام میں مؤولین اور مفوضین میں مصالحت کرائی ہے اور ان کے دو مختلف طریقوں میں تطبیق دی ہے۔ یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ اس قسم کی آیات کے معنے معلوم ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ لغوی معنے ہم کو معلوم ہیں اور جو کہتے ہیں کہ ان کے معنے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ ان لغوی معنے کی حقیقت اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کی کیفیت ہم کو معلوم نہیں۔ بالکل سچ ہے دور بینان بارگاہ الست جزازیں پے نبردہ اندکہ ہست اللہ اعلم بذاتہ وصفاتہ (منہ) اس لئے تم اس حد کو محفوظ رکھو اور باہمی تعلقات کو عمدگی سے نباہیو۔ اور سچی تعلیم اور حقانی تلقین سے دنیا کی اصلاح ہوئے بعد فساد نہ پھیلائو کہ نئی نئی بدعات نکال کر اصل دین کو مٹائو اور غیروں سے خوف و رجا کرنے لگو۔ خبردار ! ایسی حرکات سے بچو۔ اور خوف اور طمع سے دونوں حالتوں میں اسی اللہ تعالیٰ کو پکارا کرو۔ کیونکہ جو لوگ اسے ہی پکارتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ان نیکوکاروں کے بہت ہی قریب ہوتی ہے۔ کیا تمہیں اتنا بھی شعور نہیں کہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہو۔ حالانکہ وہی ذات پاک ہے جو اپنی رحمت سے پہلے سرد ہوائوں کو بارش کی خوش خبری دیتی ہوئیں بھیجتا ہے ایک پر ایک کی تہ لگاتا ہے یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بوجھل بادلوں کو لے اڑتی ہیں تو ہم (اللہ) اس بادل کو خشک بستی کی طرف چلاتے ہیں پھر اس میں سے جہاں مناسب ہوتا ہے بارش اتارتے ہیں پھر اس پانی کے ساتھ ہر قسم کے پھل پھول نکالتے ہیں پس تم ان کو کھائو اور شکر منائو۔ دیکھو جب تم پر بارش کی تنگی ہوتی ہے تو گھبراتے ہو اور جب آسائش ہوتی ہے تو سب حقوق اللہ تعالیٰ بلکہ موت اور جزا سزا سب بھول جاتے ہو۔ سن رکھو جس طرح ہم خشک زمین کو تازہ کردیتے ہیں اور معدوم پہلوں کو موجود کردیتے ہیں اسی طرح مردوں کو قبروں سے نکالیں گے تم کو یہ بتلایا جاتا ہے تاکہ تم نصیحت پائو اور سمجھو کہ برائی اور بھلائی کا نتیجہ یکساں نہیں ہوگا۔ جہاں تک ہوسکے نیک عمل کرو اور بدصحبت سے بچتے رہو مگر نیک دل جو ہوں وہی سمجھتے ہیں جس طرح بارش سے عمدہ زمین کی انگوری ہری بھری نکلتی ہے ناقص اور ردی زمین کی پیداوار ردی ہی نکلا کرتی ہے اسی طرح نیک دل آدمی نصیحت یاب ہوں اور بدطینت الٹے بگڑیں تم نے نہیں سنا کہ باراں کہ در لطافت طبعش خلاف نیست در باغ لالہ روید و درشورہ بوم خس شکر گذار قوم کو سمجھانے کے لئے ہم اپنے احکام بار بار بتلاتے ہیں اور وہی ان سے فائدہ بھی پاتے ہیں