فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
چنانچہ ان دونوں کو دھوکا دے کر آہستہ آہستہ اپنی بات [١٨] پر مائل کر ہی لیا۔ پھر جب انہوں نے اس درخت کو چکھ لیا تو ان کی شرمگاہیں ایک دوسرے پر ظاہر ہوگئیں اور وہ جنت کے پتے اپنی شرمگاہوں پر [١٩] چپکانے لگے۔ اس وقت ان کے پروردگار نے انہیں پکارا کہ: کیا میں نے تمہیں اس درخت سے روکا نہ تھا اور یہ نہ کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟
﴿فَدَلَّاهُمَا ﴾” پس نیچے لے آیا ان دونوں کو“ یعنی شیطان نے آدم و حوا علیہما السلام کو ان کے بلند مرتبے سے، جو کہ گناہوں سے دوری پر مبنی تھا، اتار کر نافرمانی کی گندگی میں لتھیڑ دیا اور انہوں نے آگے بڑھ کر اس شجر ممنوعہ کے پھل کو کھالیا ﴿فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا﴾ ” پس جب چکھا ان دونوں نے درخت کو، تو ان پر ان کی شرم گاہیں کھل گئیں“ یعنی دونوں کا ستر ظاہر ہوگیا اس سے پہلے ان کا ستر چھپا ہوا تھا۔ پس اس حالت میں تقویٰ سے باطنی عریانی نے ظاہری لباس میں اپنا اثر دکھایا۔ حتیٰ کہ وہ لباس اتر گیا اور ان کا ستر ظاہر ہوگیا اور جب ان پر ان کا ستر ظاہر ہوا تو وہ بہت شرمسار ہوئے اور جنت کے درختوں کے پتوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے۔ ﴿ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا ﴾ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر و توبیخ کرتے ہوئے آواز دی ﴿أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴾ ” کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور تمہیں کہا نہیں تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے“ پھر تم نے اپنے دشمن کی اطاعت کر کے ممنوعہ کام کا ارتکاب کیوں کیا؟ پس اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر کے ان پر احسان کیا اور انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت طلب کرتے ہوئے عرض کیا۔