ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَّعَلَّهُم بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ
پھر ہم نے موسیٰ کو ایسی کتاب دی جو نیک روش اختیار کرنے والے کے لیے مکمل تھی اور اس میں ہر (ضروری) بات کی تفصیل [١٧٦۔ ١] بھی تھی اور یہ کتاب ہدایت اور رحمت بھی تھی (اور اس لیے دی تھی) کہ شائد وہ لوگ اپنے پروردگار سے ملاقات [١٧٧] پر ایمان لائیں
﴿ ثُمَّ ﴾ ” پھر“ اس مقام پر ( ثُمَّ ) سے مراد ترتیب زمانی نہیں ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ اس زمانے سے بہت متقدم ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلاوت فرمائی تھی۔ یہاں دراصل ترتیب اخباری مراد ہے۔ ﴿آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ﴾ ” موسیٰ کو کتاب عنایت کی“ پس اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے حضرت موسیٰ کو کتاب عطا کی۔ اس سے مراد تو رات ہے ﴿تَمَامًا﴾اپنی نعمت اور احسان کو پورا اور مکمل کرنے کے لئے ﴿عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ﴾ ” ان پر جو نیکو کار ہیں۔“ یعنی جناب موسیٰ کی امت میں سے ان لوگوں پر اپنی نعمت کو پورا کرنے کے لئے جنہوں نے نیک کام کئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے نیکو کاروں کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے جن کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ من جملہ ان کامل نعمتوں کے ان پر تورات کا نازل کرنا ہے پس ان پر اللہ تعالیٰ کی نعمت مکمل ہوگئی اور ان پر ان نعمتوں کا شکر ادا کرنا واجب ٹھہرا۔ ﴿وَتَفْصِيلًا لِّكُلِّ شَيْءٍ﴾ ” اور ہر چیز کی تفصیل کے لئے“ یعنی ہر اس چیز کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ جس کے وہ محتاج ہیں، اس کا تعلق حلال و حرام سے ہو، اوامرونواہی سے ہو یا عقائد وغیرہ سے۔ ﴿وَهُدًى ﴾ ” اور ہدایت“ یعنی وہ بھلائی کی طرف ان کی راہنمائی کرتی ہے اور اصول و فروع میں ان کو برائی کی پہچان کرواتی ہے ﴿وَرَحْمَةً﴾ ” اور رحمت“ یعنی اس رحمت کے ذریعے سے انہیں سعادت اور خیر کثیر سے نوازا جاتا ہے ﴿لَّعَلَّهُم﴾” تاکہ وہ لوگ“ یعنی ہمارے ان پر کتاب اور واضح دلائل نازل کرنے کے سبب سے ﴿ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ﴾ ” اپنے رب کی ملاقات پر ایمان لائیں“ کیونکہ یہ کتاب قیامت اور جزائے اعمال کے قطعی دلائل اور ایسے امور پر مشتمل ہے جو ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی ملاقات پر ایمان اور اس کے لئے تیار کے موجب ہیں۔