سورة الانعام - آیت 130

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

پھر اللہ ان سے فرمائے گا :’’اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمہارے ہاں تمہیں میں سے رسول نہیں آئے تھے جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کرتے اور آج کے دن کی ملاقات [١٣٨] سے تمہیں ڈراتے تھے؟‘‘ وہ کہیں گے ’’ہاں ہم اپنے خلاف خود یہ گواہی دیتے ہیں۔‘‘ بات یہ تھی کہ دنیا کی زندگی نے انہیں دھوکے میں مبتلا کر رکھا تھا لہٰذا وہ اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور ہوں گے کہ فی الواقع وہ (اللہ کی آیات کے) منکر تھے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ ان تمام جن و انس کو زجر و توبیخ کرتا ہے جو حق سے روگردانی کرتے ہوئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں، وہ ان کی خطا واضح کرتا ہے اور وہ اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ﴾ ” اے جنوں اور انسانوں کی جماعت ! کیا نہیں پہنچے تھے تمہارے پاس رسول تمہی میں سے کہ سناتے تھے تمہیں میرے حکم“ یعنی واضح آیات جن کے اندر امرو نہی، خیر و شر اور وعدو وعید کی تفصیلات ہیں﴿وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَـٰذَا ۚ ﴾ ” اور اس دن کی ملاقات سے تمہیں ڈراتے تھے“ یعنی تمہیں آگاہ کرتے تھے کہ تمہاری نجات اسی میں ہے۔ فوز و فلاح صرف اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب میں ہے اور ان کو ضائع کرنے میں انسان کی بدبختی اور خسارہ ہے وہ اس کا اقرار اور اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے ﴿شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ﴾ ” ہم نے اقرار کیا اپنے گناہ کا اور ان کو دھوکہ دیا دنیا کی زندگی نے“ یعنی دنیا کی زندگی نے اپنی زینت، آرائش اور نعمتوں کے ذریعے سے ان کو دھوکے میں مبتلا کردیا، وہ دنیا پر مطمئن اور راضی ہو کر بیٹھ گئے اور دنیا نے انہیں آخرت کے بارے میں غافل کردیا۔ ﴿وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ ﴾” اور گواہی دی انہوں نے اپنے آپ پر کہ وہ کافر تھے“ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی۔ تب اس وقت ہر ایک نے اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ عدل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں درد ناک عذاب کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمائے گا﴿ ادْخُلُوا فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ﴾ (الاعراف:7؍38) ” یعنی جنوں اور انسانوں کے تم سے پہلے جو گر وہ گزر چکے ہیں ان میں داخل ہوجاؤ۔“ ان کے کرتوت بھی تمہارے کرتوتوں کی مانند تھے۔ انہوں نے بھی اپنے حصے سے خوب فائدہ اٹھایا جیسے تم نے فائدہ اٹھایا۔ وہ بھی باطل میں گھس گئے جیسے تم گھس گئے ہو۔ یہ سب خسارے میں رہنے والے لوگ تھے۔ یعنی پہلے لوگ بھی اور یہ لوگ بھی اور کون سا خسارہ جنت سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے؟ کون سا خسارہ سب سے مکرم ہستی کی ہمسائیگی سے محرومی کے خسارے سے بڑا خسارہ ہوسکتا ہے؟ البتہ یہ لوگ اگرچہ خسارے میں مشترک ہوں گے۔ مگر خسارے کی مقدار میں وہ ایک دوسرے سے بہت متفاوت ہوں گے۔