وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اس طرح ہم ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنا دیں گے کیونکہ وہ (مل کر ہی) ایسے کام کیا کرتے تھے
﴿وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴾” اور اسی طرح ہم سرپرست بنا دیتے ہیں گناہ گاروں کو ایک دوسرے کا، ان کے اعمال کے سبب“ یعنی جیسے ہم سرکش جنوں کو مسلط کردیتے ہیں کہ وہ انسانوں میں سے اپنے دوستوں کو گمراہ کریں اور ہم ان کے کسب و کوشش کے سبب سے ان کے درمیان موالات اور موافقت پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح یہ ہماری سنت ہے کہ ہم کسی ظالم کو اسی جیسے کسی ظالم پر مسلط کردیتے ہیں جو اسے شر پر آمادہ کرتا ہے اور اس کو شر کی ترغیب دیتا ہے، خیر میں بے رغبتی پیدا کر کے اسے اس سے متنفر کرتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی سزا ہے جو بہت خطرناک ہے اور اس کا اثر بہت برا ہے۔ گناہ کرنے والا ظالم ہی ہے پس یہ وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور جن بھی اس کو نقصان پہنچاتا ہے ﴿وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ ﴾ (حم السجدۃ41؍46) ” اور تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ “ ظالموں کو مسلط کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جب بندوں کا فساد اور ظلم بہت بڑھ جاتا ہے اور وہ حقوق واجبہ ادا نہیں کرتے تو ان پر ظالم مسلط کردیئے جاتے ہیں جو انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں اور وہ ان سے ظلم و جور کے ذریعے سے اس سے کئی گنا زیادہ چھین لیتے ہیں جو وہ اللہ اور اس کے بندوں کے حق کے طور پر ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں اور وہ ان سے اس طرح وصول کرتے ہیں کہ ان کو اس کا اجر و ثواب بھی نہیں ملتا۔ جیسے جب بندے درست اور راست رو ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے حکمرانوں کو درست کردیتا ہے اور انہیں ظالم اور گمراہ حاکم نہیں بلکہ انہیں عدل و انصاف کے امام بنا دیتا ہے۔