سورة الانعام - آیت 113

وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُم مُّقْتَرِفُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور (وہ ایسے کام) اس لیے (بھی کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کے دل ادھر مائل ہوں [١١٧] نیز وہ اسے پسند کرلیں اور وہ برائیاں کرتے چلے جائیں جو اب کر رہے ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ﴾ ” تاکہ اس کی طرف مائل ہوں۔“ یعنی اس مزین کلام کو سننے کی طرف مائل ہوں ﴿وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ﴾ ” ان لوگوں کے دل جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے“ کیونکہ یوم آخرت پر ان کا ایمان نہ رکھنا اور عقل نافع سے ان کا محروم ہونا، ان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے﴿وَلِيَرْضَوْهُ ﴾” اور تاکہ وہ اس کو پسند بھی کرلیں“ یعنی اس کی طرف مائل ہونے کے بعد پس ان کے دل پہلے اس کی طرف مائل ہوتے ہیں پھر ان خوبصورت اور مزید عبارت کو جب دیکھتے ہیں تو ان کو پسند کرنے لگتے ہیں یہ عبارات ان کے دل میں سج جاتی ہیں اور ایک راسخ عقیدہ اور لازم وصف بن جاتی ہیں۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان سے اس قسم کے اعمال سر زد ہوتے ہیں یعنی وہ اپنے قول و فعل میں جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں جو ان عقائد قبیحہ کا لازمہ ہیں پس یہ حال ان شیاطین جن و انس کا ہے جو ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ رہے آخرت پر ایمان رکھنے والے عقل مند اور سنجیدہ لوگ تو وہ ان عبارات سے دھوکہ کھاتے ہیں نہ ان ملمع سازیوں کا شکار ہوتے ہیں، بلکہ ان کی ہمت اور ان کے ارادے حقائق کی معرفت حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں وہ ان معانی پر نظر رکھتے ہیں جن کی طرف دعوت دینے والے دعوت دیتے ہیں۔ اگر یہ معانی حق ہیں تو انہیں قبول کرلیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں خواہ ان کو کم تر عبارات اور غیر وافی الفاظ میں کیوں نہ بیان کیا گیا ہو اور اگر یہ معانی باطل ہیں تو انہیں ان کے قائل کی طرف لوٹا دیتے ہیں خواہ ان کا قائل کوئی بھی ہو اور خواہ ان الفاظ کو ریشم سے بھی زیادہ خوشنما لبادہ اوڑھا دیا گیا ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ اس نے انبیائے کرام کے دشمن بنا دیئے اور باطل کے انصار و اعوان مقرر کردیئے جو باطل کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ اس کے بندوں کی آزمائش اور امتحان ہوسکے اور سچے، جھوٹے، عقل مند اور جاہل، صاحب بصیرت اور اندھے کے درمیان امتیاز ہوسکے اور یہ بھی اس کی حکمت کا حصہ ہے کہ حق و باطل کی اس کشمکش کے اندر حق کی تبیین اور توضیح ہے کیونکہ جب باطل حق کا مقابلہ کرتا ہے تو حق روشن ہو کر اور نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ تب اس وقت حق کے وہ دلائل اور شواہد واضح ہوجاتے ہیں جو حق کی صداقت اور حقیقت اور باطل کے فساد اور اس کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں جو سب سے بڑا مقصد ہے جس کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔