وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ انظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
اور وہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا [١٠٢] پھر اس سے ہم نے ہر طرح کی نباتات اگائی اور ہرے بھرے کھیت پیدا کئے جن سے ہم تہ بہ تہ دانوں والے خوشے نکالتے ہیں۔ اور کھجوروں کے شگوفوں سے گچھے پیدا کرتے ہیں جو (بوجھ کی وجہ سے) جھکے ہوتے ہیں۔ نیز انگور، زیتون اور انار کے باغات پیدا کیے جن کے پھل ملتے جلتے بھی ہوتے ہیں اور الگ الگ بھی۔ ان کے پھل لانے اور پھلوں کے پکنے پر ذرا غور تو کرو۔ ان باتوں میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان لاتے ہیں
اس آیت کریمہ میں مذکور نعمت اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، انسان اور دیگر مخلوق جس کے سخت محتاج ہیں اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ضرورت اور حاجت کے وقت پے در پے پانی برسایا، اس پانی کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اگائی جسے انسان اور حیوانات کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مخلوق اس نباتات کو کھاتی ہے، اس کے عطا کردہ رزق سے انبساط محسوس کرتی ہے، لوگ اس کے احسان پر خوش ہوتے ہیں اور ان سے قحط اور خشک سالی دور ہوجاتی ہے۔ پس دل خوش ہوجاتے ہیں اور چہرے نکھر جاتے ہیں، بندوں کو اللہ رحمان و رحیم کی بے پایاں رحمت نصیب ہوتی ہے جس سے وہ متمتع ہوتے ہیں، اس سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔ یہ چیز ان پر واجب ٹھہراتی ہے کہ وہ اس ہستی کا شکر ادا کریں جس نے انہیں یہ نعمتیں عطا کی ہیں اور اس کی عبادت، اس کی طرف انابت اور اس کی محبت میں اپنی کوشش صرف کریں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس پانی سے اگنے والے درختوں اور نباتات کا عمومی ذکر کیا تو اب (خصوصی طور پر) کھیتیوں اور کھجوروں کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ ان کی منفعت بہت زیادہ ہے اور اکثر لوگوں کی خوراک بھی انہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ﴿فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ﴾ ” پھر نکالی ہم نے اس سے سبز کھیتی، ہم نکالتے ہیں اس سے“ یعنی اس سرسبز نباتات میں سے ﴿حَبًّا مُّتَرَاكِبًا﴾ ” دانے، ایک پر ایک چڑھا ہوا“ یعنی گندم، جو، مکئی اور چاول جیسی زرعی اجناس میں دانے اپنی بالیوں میں ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس کے وصف میں ” ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے“ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ ایک بالی میں متعدد دانے ہوتے ہیں، سب ایک ہی مادے سے خوراک حاصل کرتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے خلط ملط نہیں ہوتے، تمام دانے متفرق ہوتے ہیں، ان کی جڑ ایک ہی ہوتی ہے۔“ یہ دانوں کی کثرت، ان کے بڑے ؟؟؟اور غلے کے عام ہونے کی طرف بھی اشارہ ہے تاکہ کچھ تو بیج کے لئے باقی رہے اور دوسرا غلہ کھایا اور ذخیرہ کیا جا سکے۔ ﴿ وَمِنَ النَّخْلِ ﴾” اور کھجور سے“ اللہ تعالیٰ نے نکالا ﴿ مِن طَلْعِهَا ﴾” اس کے گابھے سے“ اور وہ کھجور کا خوشہ نکلنے سے قبل اس پر چڑھا ہوا غلاف ہے۔ پس اس غلاف میں سے کھجور کا خوشہ نکلتا ہے ﴿قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ﴾ ” پھل کے گچھے، جھکے ہوئے“ یعنی قریب قریب لگے ہوئے خوشے، جن کا حصول بہت آسان ہوتا ہے جو کوئی خوشوں کو توڑنا چاہے وہ ان کے بہت قریب ہوتا ہے۔ انہیں کھجور سے حاصل کرنا مشکل نہیں ہوتا، خواہ کھجور کا درخت کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو، کیونکہ کھجور کے تنے سے کٹی ہوئی شاخوں کی جگہ سیڑھیاں سی بن جاتی ہیں ان کی مدد سے کھجور پر چڑھنا آسان ہوجاتا ہے ﴿وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ﴾ ” اور (اس پانی سے) انگور، زیتون اور انار کے باغات اگائے۔“ چونکہ یہ درخت کثیر الفوائد اور عظیم وقعت کے حامل ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے درختوں اور نباتات کا عمومی ذکر کرنے کے بعد ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ ﴿مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ﴾ ” آپس میں ملتے جلتے بھی اور جدا جدا بھی“ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ اس سے مراد انار اور زیتون ہو، کیونکہ ان کے درخت اور پتے ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اور ان کے پھل غیر مشابہ (جدا جدا) ہوتے ہیں اور اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد تمام درخت اور میوے وغیرہ ہوں جن میں سے بعض ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اور بعض ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں اور بعض اوصاف میں ایک دوسرے سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے (بلکہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔) ان تمام درختوں سے بندے فائدہ اٹھاتے ہیں، ان سے پھل اور غذا حاصل کرتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے ان سے عبرت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ﴿انظُرُوا ﴾” دیکھو“ یعنی غور و فکر اور عبرت کی نظر سے دیکھو﴿إِلَىٰ ثَمَرِهِ ﴾ تمام درختوں کے پھل کی طرف عام طور پر اور کھجور کے پھل کی طرف خاص طور پر ﴿ إِذَا أَثْمَرَ﴾ ” جب وہ پھل لائے“ ﴿ وَيَنْعِهِ﴾ ” اور اس کے پکنے پر“ یعنی اس کے شگوفے نکلنے، پھل پکنے اور اس کے پک کر سر ہونے کی طرف دیکھو، کیونکہ اس میں عبرت اور نشانیاں ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کے جود واحسان کی وسعت، اس کے کامل اقتدار اور بندوں پر اس کی بے پایاں عنایات پر استدلال کیا جاتا ہے۔ مگر ہر ایک تفکر و تدبر کے ذریعے سے عبرت حاصل نہیں کرتا اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جو کوئی غور و فکر کرے وہ معنی مقصود کو پالے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی سے فائدہ اٹھانے کو مومنین کے ساتھ خاص کیا ہے، چنانچہ فرمایا :﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴾ ”اس میں ایمان رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں“ کیونکہ مومنین کا ایمان ان کو اپنے ایمان کے تقاضوں اور لوازم پر عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور ان لوازم میں آیات الٰہی میں غور و فکر، ان سے نتائج کا استخراج، ان کا معنی مراد اور یہ آیات عقلاً شرعاً اور فطرتاً جس چیز پر دلالت کرتی ہیں، سب شامل ہیں۔