بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
بات یہ ہے کہ جس نے بھی برے کام کئے، پھر اس کے گناہوں نے اس کا گھیرا کرلیا تو ایسے ہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
پھر اللہ تعالیٰ نے سب کے لئے ایک عام حکم بیان کیا ہے جس میں بنی اسرائیل اور دیگر تم لوگ داخل ہیں وہ ایک ایسا حکم ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور حکم ہو ہی نہیں سکتا نہ کہ ان کی آرزوئیں اور دعوے، جو وہ ہلاک ہونے والوں اور نجات پانے والوں کی بابت کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَلَىٰ ﴾یعنی معاملہ یوں نہیں جس طرح تم نے بیان کیا ہے کیونکہ یہ تو ایک ایسی بات ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ﴿ مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً ﴾” جس نے کوئی برائی کمائی“ یہاں ﴿سَیِّئَۃً ﴾ برائی شرط کے سیاق میں نکرہ استعمال ہوئی ہے لہٰذا اس کے عموم میں شرک اور اس سے کمتر تمام برائیاں داخل ہیں، لیکن یہاں اس سے مراد شرک ہے اور اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے ﴿وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْۗــــَٔــتُہٗ﴾ یعنی برائی کا ارتکاب کرنے والے کو اس کی برائی نے گھیر لیا اور اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا اور یہ شرک کے علاوہ کوئی اور برائی نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ جو ایمان سے بہرہ ور ہے برائی اسے گھیر نہیں سکتی۔ ﴿ فَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ﴾” پس وہ آگ کے مستحق ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے“ اس آیت کریمہ سے خوارج نے استدلال کیا ہے کہ گناہ کا ارتکاب کرنے والا کافر ہے حالانکہ یہ تو ان کے خلاف دلیل ہے کیونکہ یہ تو ظاہری طور پر شرک کے بارے میں ہے۔ اس طرح ہر باطل پسند جو قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث سے اپنے باطل نظرئیے پر استدلال کرتا ہے تو استدلال خود اس کے خلاف ایک قوی دلیل ہوتا ہے۔