فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ
ایسے لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جو کتاب (فتوی وغیرہ) تو اپنے ہاتھوں سے (اپنی مرضی کے مطابق) لکھتے ہیں۔ پھر کہتے یہ ہیں کہ یہی اللہ کے ہاں سے (نازل شدہ حکم) ہے۔ تاکہ اس سے تھوڑے سے دام [٩٣] لے سکیں۔ ان کے ہاتھ کی تحریر بھی ان کے لیے بربادی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے ہلاکت کا سبب ہے
اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو کتاب اللہ میں تحریف کرتے ہیں، اپنی تحریف اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں اس کے بارے میں کہتے ہیں ﴿هَـٰذَا مِنْ عِندِ اللَّـهِ﴾ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ اظہارِ باطل اور کتمان حق ہے۔ اور انہوں نے علم رکھنے کے باوجود یہ کیا۔ ﴿لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَــمَنًا قَلِیْلًا﴾ ” تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی قیمت حاصل کریں“ اور تمام دنیا اول سے لے کر آخر تک کتاب اللہ کے مقابلے میں بہت کم قیمت ہے۔ پس انہوں نے اپنے باطل کو ایک جال بنا رکھا ہے جس میں لوگوں کو پھانس کر ان کا مال ہتھیاتے ہیں۔ پس وہ لوگوں پر دو پہلوؤں سے ظلم کرتے ہیں۔ (1) ایک پہلویہ ہے کہ وہ لوگوں پر ان کے دین کو چھپاتے ہیں۔ (2) اس کا دوسرا پہلویہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال ناحق بلکہ باطل ترین طریقے سے ہڑپ کرتے ہیں اور اس کی برائی چوری اور غصب کرنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ پس ان دو امور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سنائی ہے۔ ﴿فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ﴾” پس ہلاکت ہے ان کے لئے اس سے، جو ان کے ہاتھوں نے لکھا۔‘‘یعنی جو تحریف کی اور باطل تحریریں لکھیں۔ ﴿ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ﴾ یعنی وہ مال جو وہ باطل طریقے سے کماتے ہیں۔ (ویل) عذاب کی شدت اور حسرت کو کہا جاتا ہے اسی کے ضمن میں سخت وعید بھی آجاتی ہے۔ شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ﴿أَفَتَطْمَعُونَ﴾ سے لے کر ﴿يَكْسِبُونَ﴾ تک آیات کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :” اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو اللہ تعالیٰ کی آیات میں تحریف کرکے ان کو اصل مفہوم سے ہٹا دیتے ہیں۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو کتاب و سنت کو اپنی بدعات باطلہ پر محمول کرتے ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی بھی مذمت فرمائی ہے جو کتاب کا علم نہیں رکھتے سوائے اپنی خواہشات اور آرزوؤں کے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تدبر قرآن کے سرنہاں کو ترک کردیتے ہیں اور اس کے حروف کی مجردتلاوت کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے۔ یہ وعید اس شخص کے لئے بھی ہے جو محض دنیا کمانے کے لئے کوئی ایسی کتاب لکھتا ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے اور کہتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ یہ شریعت اور دین ہے، یہ کتاب و سنت کا معنی ہے، یہ سلف امت اور ائمہ کرام کی تعبیرات ہیں اور یہ دین کے وہ بنیادی اصول ہیں جن پر اعتقاد رکھنا فرض عین یا فرض کفایہ ہے۔ اس وعید میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کتاب و سنت کے علم کو محض اس وجہ سے چھپاتے ہیں کہ کہیں ان کے مخالفین اس کو اپنے حق میں ان کے خلاف دلیل نہ بنا لیں۔ اہل اہواء و بدعات میں بالجملہ یہ امور بہت کثرت سے پائے جاتے ہیں، مثلاً روافض وغیرہ اور تفصیلاً یہ امور بہت سے ان لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو ائمہ فقہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔‘‘