قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَكَذَّبْتُم بِهِ ۚ مَا عِندِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ
آپ ان سے کہئے کہ ''میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل (قرآن) پر قائم ہوں جسے تم نے جھٹلا دیا ہے اور جس چیز کی تم جلدی [٦١] کر رہے ہو (عذاب کی) وہ میرے پاس نہیں۔ حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے جو حق ہی بیان کرتا ہے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے
﴿عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي ﴾ ” میں تو اپنے رب کی دلیل روشن پر ہوں۔“ آپ کہہ دیجیے کہ میں تو اس قرآن کی صحت اور اس کے ماسوا کے بطلان کا واضح یقین رکھتا ہوں۔ یہ رسول کی طرف سے قطعی شہادت ہے جو ہر قسم کے تردد سے پاک ہے۔ رسول علی الاطلاق سب سے عادل گواہ ہوتا ہے۔ اہل ایمان نے رسول کی گواہی کی تصدیق کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو جس ایمان سے نوازا ہے اس ایمان کے مطابق ان کے ہاں اس شہادت کی صحت اور صداقت متحقق ہے۔ ﴿وَ﴾ مگر اے مشرکو !﴿كَذَّبْتُم بِهِ﴾” تم نے اس کی تکذیب کی“ اور یہ تمہاری طرف سے اس سلوک کا مستحق نہ تھا، تصدیق کے سوا کوئی اور سلوک اس کے شایان شان نہ تھا۔ جب تم تکذیب پر مصر ہو تو جان رکھو کہ لا محالہ عذاب تم پر واقع ہونے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ عذاب مقرر ہے وہ جب چاہے گا اور جیسے چاہے گا تم پر نازل کرے گا۔ اگر تم جلدی مچاتے ہو تو معاملہ میرے اختیار میں نہیں ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ﴾ ” حکم صرف اللہ کا ہے“ جس طرح اس نے اوامرونواہی میں اپنا حکم شرعی نافذ کیا ہے اسیطرح وہ حکم جزائی نافذ کرے گا اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق ثواب و عقاب دے گا۔ پس اس کے فیصلے پر اعتراض درخورا عتنا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے راہ حق کو واضح کردیا ہے اور اپنے بندوں کے سامنے حق بیان کر کے ان کا عذر ختم کردیا اور یوں ان کی حجت منقطع ہوگئی، تاکہ وہ ہلاک ہو تو وہ دلیل کے ساتھ ہلاک ہوا او جو زندہ رہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے ﴿وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ ﴾ ”وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔“ وہ دنیا و آخرت میں اپنے بندوں کے درمیان بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، وہ ان کے درمیان ایسافیصلہ کرتا ہے جس پر اس کی تعریف کی جاتی ہے حتیٰ کہ وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہتا جس کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے اور وہ حق کو واضح اور متعین کردیتا ہے۔