ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
(ایسی واضح نشانیاں دیکھنے کے بعد) پھر تمہارے دل سخت ہوگئے، اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر کیونکہ پتھروں میں [٨٨] سے تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اور کچھ ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلنے لگتا ہے۔ اور کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے (لرز کر) گر پڑتے ہیں۔ اور جو کچھ کرتوت تم کر رہے ہو اللہ ان سے بے خبر نہیں
﴿ ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ﴾ یعنی پھر تمہارے دل بہت سخت ہوگئے، ان پر کسی قسم کی نصیحت کارگر نہیں ہوتی تھی۔ ﴿ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِکَ ﴾یعنی اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں عظیم نعمتوں سے نوازا اور تمہیں بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرایا۔ حالانکہ اس کے بعد تمہارے دلوں کا سخت ہوجانا مناسب نہ تھا کیونکہ تم نے جن امور کا مشاہدہ کیا تھا وہ رقت قلب اور اس کے مطیع ہونے کے موجب ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ولوں کی سختی کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ﴾۔ یعنی وہ سختی میں ” پتھر کی مانند ہیں‘ جو لوہے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ فولاد ہو یا سیسہ جب اسے آگ میں پگھلایا جائے تو پگھل جاتا ہے بخلاف پتھر کے جو آگ میں بھی نہیں پگھلتا ﴿اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ﴾” یا اس سے بھی زیادہ سخت“ یعنی ان کے دلوں کی سختی پتھروں سے کم نہیں۔ یہاں ” او“ (بل) کے معنی میں نہیں ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پتھروں کو ان کے دلوں پر فضیلت دیتے ہوئے فرمایا : ﴿وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ ۭ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاۗءُ ۭوَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ﴾ کیونکہ ” بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے اور بعض اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں‘‘ یعنی ان تمام مذکورہ امور کی وجہ سے پتھر تمہارے دلوں سے بہتر ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سخت وعید سناتے ہوئے کہا : ﴿ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ یعنی وہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں بلکہ وہ تمہارے اعمال کو پوری طرح جانتا ہے، وہ تمہارے ہر چھوٹے بڑے عمل کو یاد رکھنے والا ہے اور وہ عنقریب تمہیں تمہارے ان اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ معلوم ہونا چاہئے کہ بہت سے مفسرین رحمتہ اللہ علیہم نے اپنی تفاسیر کو بنی اسرائیل کے قصوں سے لبریز کر رکھا ہے۔ وہ آیات قرآنی کو اسرائیلیات پر پیش کرتے ہیں اور ان کے مطابق کتاب اللہ کی تفسیر کرتے ہیں اور وہ اپنے اس موقف پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے استدلال کرتے ہیں (حَدِّثوا عن بَني إسرائيلَ ولا حَرَجَ) ” بنی اسرائیل سے روایت کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔“ [سنن ابی داؤد، العلم ، باب الحدیث عن بنی اسرائیل‘ حدیث:3662] اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ اگرچہ ایک پہلو سے بنی اسرائیل کی روایت نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں مگر اس سے مراد یہ ہے کہ ان روایات کو الگ اور غیر مقرون (قرآن کی تفسیر کے ساتھ ملائے بغیر) بیان کیا جاسکتا ہے۔ ان کو کتاب اللہ پر پیش کر کے کتاب اللہ کی تفسیر بنانا قطعاً جائز نہیں جب کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت نہ ہو۔ یہ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ان روایات کا مرتبہ صرف یہ ہے: ((لَاتُصَدِّقُواَهل الْكِتَابِ وَلَاتُكَذِّبُوْهُم))[صحیح البخاری، التفسیر، باب قولوا آمنا باللّٰه وماانزل الینا‘ حدیث:4485] ” تم اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔“ جب ان روایات کا مرتبہ یہ ہے کہ ان کی صحت مشکوک ہے اور ضروریات دین کے طور پر یہ چیز بھی ہمیں معلوم ہے کہ قرآن مجید پر ایمان لانا اور اس کے الفاظ و معانی پر قطعی یقین رکھنا فرض ہے، لہٰذا ان مجہول روایات کے ذریعے سے منقول قصے کہانیوں کو جن کے بارے میں غالب گمان یہ ہے کہ یہ جھوٹی ہیں یا ان میں سے اکثر جھوٹی ہیں یقین کے ساتھ قرآن کے معانی قرار دینا ہرگز جائز نہیں۔ اس بارے میں کسی کو شک میں نہیں رہنا چاہئے۔ اس اصول سے غفلت کے سبب سے بہت سا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ واللہ الموفق۔