سورة الانعام - آیت 14

قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

آپ ان سے کہئے :’’کیا میں اس اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو سرپرست بناؤں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سب کو کھانا کھلاتا [١٥] تو ہے لیکن کسی سے کھانا لیتا نہیں؟‘‘ آپ ان سے کہئے:’’مجھے یہی حکم ہوا ہے کہ میں سب سے پہلے سرتسلیم خم کروں اور شرک کرنے والوں میں شامل نہ ہوں‘‘

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ قُلْ﴾ ” کہہ دیجیے !“ یعنی آپ اللہ تعالیٰ سے شرک کرنے والوں سے کہہ دیجیے !﴿أَغَيْرَ اللَّـهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا﴾” کیا اللہ کے سوا کسی اور کو میں مددگار بناؤں ؟“ ان عاجز مخلوقات میں سے کون میرا سرپرست و مددگار بنے گا؟ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا والی اور مددگار نہیں بناتا کیونکہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا مالک ہے یعنی ان کا خالق اور ان کی تدبیر کرنے والا ہے ﴿وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ﴾ ” اور وہ سب کو کھلاتا ہے، اور اسے کوئی نہیں کھلاتا“ یعنی وہ تمام مخلوقات کو رزق عطا کرتا ہے بغیر اس کے کہ اس کو ان میں سے کسی کے پاس کوئی حاجت ہو۔ تب یہ کیسے مناسب ہے کہ میں کسی ایسی ہستی کو اپنا والی بنا لوں جو پیدا کرنے والی ہے نہ رزق عطا کرنے والی، جو بے نیاز ہے نہ قابل تعریف۔ ﴿قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ﴾ ” کہہ دیجیے ! مجھے حکم ہوا ہے کہ سب سے پہلے حکم مانوں“ یعنی میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی اطاعت کے ساتھ اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دوں، کیونکہ میں ہی سب سے زیادہ اس بات کا مستحق ہوں کہ اپنے رب کے احکام کی اطاعت کروں ﴿وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ ” اور آپ ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہ ہوں“ یعنی مجھے اس بات سے بھی روک دیا گیا ہے کہ میں مشرکوں میں شامل ہوں یعنی ان کے اعتقادات میں نہ ان کے ساتھ مجالست میں اور نہ ان کے ساتھ اجتماع میں اور یہ حکم میرے لئے سب سے بڑا فرض اور سب سے بڑا واجب ہے۔