سورة الانعام - آیت 7

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور اگر ہم کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب آپ پر اتارتے پھر یہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر دیکھ [٧] بھی لیتے تو جن لوگوں نے کفر کیا ہے یہی کہتے کہ یہ تو ’’صاف جادو ہے‘‘

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی شدت عناد سے آگاہ فرمایا ہے اور یہ کہ ان کا یہ جھٹلانا آپ کی لائی ہوئی کتاب میں کسی نقص کی وجہ سے نہ تھا اور نہ اس کا سبب ان کی جہالت تھا، یہ تو محض ظلم اور زیادتی کی بنا پر تھا جس میں تمہارے لئے کوئی چارہ نہیں۔ اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ ﴾” اگر اتاریں ہم آپ پر لکھا ہوا کاغذ میں، پھر چھولیں اس کو اپنے ہاتھوں سے“ یعنی انہیں یقین آجائے ﴿ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ ” تو جو کافر ہیں وہ کہیں گے۔“ یعنی ظلم اور تعدی کی بنا پر کفار کہیں گے ﴿اإِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ﴾ ” یہ تو کھلا جادو ہے۔“ اس سے بڑھ کر اور کون سی دلیل ہوسکتی ہے؟ اور یہ ہے اس بارے میں ان کا انتہائی قبیح قول، انہوں نے ایسی محسوس چیز کا انکار کردیا جس کا انکار کوئی ایسا شخص نہیں کرسکتا جس میں معمولی سی بھی عقل ہے۔