سورة النسآء - آیت 171

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو [١٢٢٤] نہ کرو۔ اور اللہ کی نسبت وہی بات کہو جو حق ہو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ [٢٢٥] تھے۔ جسے اللہ نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور وہ اس کی طرف سے ایک روح تھے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ نہ کہو کہ (خدا) تین [٢٢٦] ہیں۔ اس بات سے [٢٢٧] باز آجاؤ، یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔ صرف اللہ اکیلا ہی الٰہ ہے۔ وہ اس بات سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔[٢٢٨] اور اللہ اکیلا ہی (کائنات کا) نظام چلانے کے لیے کافی ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اہل کتاب کو دین میں غلو کرنے سے منع کرتا ہے اور غلو سے مراد ہے حد سے تجاوز کرنا اور حدود مشروع سے نکل کر غیر مشروع کی طرف جانا۔ جیسے نصاریٰ جناب عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور انہیں نبوت اور رسالت کے مقام سے اٹھا کر ربوبیت کے مقام پر بٹھا دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لائق نہیں۔ پس جس طرح تقصیر اور تفریط (کمی) منہیات میں سے ہے، غلو بھی اسی طرح ممنوع ہے۔ اسی لئے فرمایا : ﴿وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّـهِ إِلَّا الْحَقَّ ﴾” اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔“ یہ کلام اقدس تین امور کو متضمن ہے۔ ان میں سے پہلے دو امور ممنوع ہیں۔ اول: اللہ تبارک و تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا۔ ثانی: اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اس کے افعال، اس کی شریعت اور اس کے رسولوں کے بارے میں بلاعلم بات کرنا۔ ثالث : اور تیسری چیز وہ ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور وہ ہے ان تمام امور میں قول حق۔ چونکہ یہ ایک عام قاعدہ کلیہ ہے اور سیاق کلام جناب عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بارے میں نص اور قول حق ہے اور یہودیت اور نصرانیت کے طریقے کے خلاف ہے اس لئے فرمایا۔ ﴿إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّـهِ ﴾ ” مسیح یعنی مریم کے بیٹے عیسیٰ اللہ کے رسول ہیں۔“ یعنی جناب مسیح کی غایت اور مراتب کمال کی انتہاء وہ اعلیٰ ترین حالت ہے جو کسی مخلوق کے لئے ہوسکتی ہے اور وہ مرتبہ رسالت ہے، جو بلند ترین درجہ اور جلیل ترین مقام ہے۔ ﴿وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ ﴾ ” اور اس کا کلمہ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا۔“ اور وہ ایک کلمہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور اس کلمہ کے ذریعے سے حضرت عیسیٰ نے تخلیق قائی۔ خود حضرت عیسیٰ وہ کلمہ نہ تھے بلکہ وہ اس کلمہ کے ذریعے سے وجود میں آئے اور یہ شرف و تکریم کی اضافت ہے۔ اسی طرح فرمایا : ﴿وَرُوحٌ مِّنْهُ ﴾ ” اور اس کی طرف سے ایک روح تھے۔“ یعنی ان ارواح میں میں سے ایک روح ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا اور صفات فاضلہ اور اخلاق کاملہ کے ساتھ اس کی تکمیل کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ روح جبرئیل علیہ الصلوۃ و السلام کو دے کر جناب مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا اور انہوں نے جناب مریم علیہا السلام کی فرج میں روح کو پھونک دیا، پس اللہ کے حکم سے ان کو حمل ٹھہر گیا جس سے حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت واضح کردی تو اس نے اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کا حکم دیا اور ان کو تین خدا بنانے سے منع کیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم ان کا برا ہو یہ نصاری کا قول باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تثلیث سے باز آجائیں اور انہیں آگاہ فرمایا کہ یہ ان کے لئے بہتر ہے کیونکہ یہ امر متعین ہے کہ یہی نجات کی راہ ہے اور اس کے سوا ہر راستہ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو شریک اور اولاد سے منزہ قرار دیا ہے۔ فرمایا : ﴿اِنَّمَا اللّٰہ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ﴾” اللہ ہی معبود واحد ہے۔“ یعنی وہ الوہیت میں منفرد (یکتا) ہے جس کے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں ﴿سُبْحٰنَهُ﴾ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے ﴿اَنْ يَكُوْنَ لَهُ وَلَدٌ﴾ ” کہ اس کا کوئی بیٹا ہو“ کیونکہ ﴿لَهُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ﴾ ” اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے“ پس تمام اس کے مملوک اور اس کے محتاج ہیں۔ اس لئے یہ محال ہے کہ ان میں سے اس کا کوئی شریک یا اس کا کوئی بیٹا ہو۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمام عالم علوی اور سفلی کا مالک ہے تو وہ یہ بھی بتلاتا ہے کہ وہی تمام دنیوی اور آخروی مصالح کا بھی انتظام فرماتا ہے، ان مصالح کی حفاظت کرتا ہے اور ان کی جزا دیتا ہے۔