سورة النسآء - آیت 149

إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اگر تم کوئی بھلائی علانیہ کرو یا خفیہ کرو یا کسی کا [١٩٨] قصور معاف کردو تو اللہ (خود بھی) بڑا معاف کرنے والاہے اور ہر بات پر قادر ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ ﴾ ” اگر تم بھلائی کھلم کھلا کرو گے یا چھپا کر۔“ یہ قولی و فعلی، ظاہری و باطنی، واجب و مستحب ہر بھلائی کو شامل ہے۔ ﴿أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ ﴾ ” یا برائی سے درگزر کرو گے۔“ یعنی وہ شخص جو تمہارے بدن، تمہارے اموال اور تمہاری عزت و ناموس کے معاملے میں تمہارے ساتھ برا سلوک کرے تم اسے معاف کر دو کیونکہ عمل کی جزا عمل کی جنس ہی سے ہوتی ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتا ہے جو کسی کے ساتھ بھلائی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ بھلائی کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا ﴾” تو اللہ بھی معاف کرنے والا صاحب قدرت ہے۔“ یعنی وہ اپنے بندوں کی لغزشوں اور ان کے بڑے بڑے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور ان کی پردہ پوشی کرتا ہے اور کامل عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے ان سے معاملہ کرتا ہے۔ جس اس کی قدرت کاملہ سے صادر ہوتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے معانی میں تدبر تفکر کی طرف راہنمائی کی گئی ہے، نیز یہ کہ خلق و امران اسماء و صفات سے صادر ہوتے ہیں اور یہ اسماء و صفات خلق و امر کا تقاضا کرتے ہیں۔ بنا بریں اسمائے حسنی کو احکام کی علت بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کے عمل اور برا سلوک کرنے والے کو معاف کردینے کا ذکر کیا ہے اس لئے اس نے اس پر یہ امر مرتب فرمایا کہ اس نے اپنے اسماء کی معرفت کو ہمارا مدار بنا دیا اور یہ چیز ہمیں ان اسماء حسنی کے ثواب خاص کے ذکر سے مستغنی کرتی ہے۔