سورة النسآء - آیت 141

الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلَن يَجْعَلَ اللَّهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ منافقین جو آپ کے بارے میں ہر وقت منتظر رہتے ہیں، اگر اللہ کی مہربانی سے تمہیں فتح نصیب ہو تو کہتے ہیں : کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کا پلہ بھاری رہے تو انہیں کہتے ہیں :’’کیا ہم تم پر قابو پانے کی قدرت [١٨٧] نہ رکھتے تھے اور (اس کے باوجود) ہم نے تمہیں مسلمانوں سے بچا نہیں لیا ؟‘‘ پس اللہ ہی قیامت کے دن تمہارے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ نے کافروں کے لیے مسلمانوں پر (غالب آنے کی) ہرگز [١٨٨] کوئی گنجائش نہیں رکھی

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ منافقین کی کفار کے ساتھ موالات اور اہل ایمان کے ساتھ عداوت متحقق ہے۔ ﴿الَّذِينَ يَتَرَبَّصُونَ بِكُمْ﴾ ” جو تم کو دیکھتے رہتے ہیں۔“ یعنی مستقبل میں تمہارے اچھے یا برے حالات کے منتظر ہیں۔ انہوں نے اپنے نفاق کے مطابق ہر حالت کے بارے میں جواب تیار کر رکھا ہے۔ ﴿فَإِن كَانَ لَكُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللَّـهِ قَالُوا أَلَمْ نَكُن مَّعَكُمْ﴾ ” پھر اگر اللہ تمہیں فتح دے تو یہ کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟“ وہ ظاہر کریں گے کہ وہ ظاہری اور باطنی طور پر اہل ایمان کے ساتھ تھے تاکہ طعن و تشنیع سے بچ سکیں، نیز فے اور مال غنیمت میں سے حصہ وصول کرسکیں اور ان کے ساتھ مل کر وہ محفوظ رہیں۔ ﴿وَإِن كَانَ لِلْكَافِرِينَ نَصِيبٌ﴾” اور اگر کافروں کو کچھ حصہ مل جائے“ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اگر کافروں کی فتح ہو کیونکہ ان کو ایسی فتح حاصل نہیں ہوتی جو ان کی دائمی نصرت کی ابتداء ہو۔ اگر ان کے لئے کوئی حصہ ہوتا ہے تو اس کی انتہا یہ ہے کہ وہ عارضی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے، چنانچہ جب یہ صورتحال ہوتی ہے ﴿قَالُوا أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ﴾ ” تو کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہ تھے“ ﴿وَنَمْنَعْكُم مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تم کو مسلمان کے ہاتھوں سے بچایا نہیں؟“ یعنی وہ کفار کے پاس بناوٹ اور تصنع سے کام لے کر ان سے کہتے تھے کہ قدرت اور طاقت کے باوجود انہوں نے ان سے لڑائی نہیں کی اور ان کو مسلمانوں سے بچائے رکھا اور وہ ہر لحاظ سے جنگ کے لئے گھر سے نکلنے سے رکے رہے، لڑائی سے گریز کرتے رہے اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کرتے رہے اور ان کے بارے میں یہ تمام امور معروف ہیں۔ ﴿فَاللّٰهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ﴾ ” پس اللہ تعالیٰ قیامت کے روز ان کے درمیان فیصلہ کرے گا“ اور اہل ایمان کو، ظاہری اور باطنی طور پر، بدلے میں جنت عطا کرے گا اور منافق مردوں اور منافق عورتوں، مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو جہنم کے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ ﴿وَلَن يَجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكَافِرِينَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ سَبِيلًا﴾ ” اور اللہ کافروں کو مومنوں پر ہرگز غلبہ نہیں دے گا۔“ یعنی اللہ کفار کو اہل ایمان پر کبھی تسلط اور غلبہ عطا نہیں کرے گا، بلکہ اہل ایمان کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی۔ اللہ اس جماعت کی مدد کرے گا، جو ان سے علیحدہ ہوگا اور ان کی مخالفت کرے گا وہ ان کا کوئی نقصان نہیں کرسکے گا۔ اہل ایمان کی فتح و نصرت کے اسباب پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور کفار کا تسلط ختم ہوتا چلا جائے گا اور اس کا واضح طور پر مشاہدہ ہوچکا ہے۔ حتیٰ کہ بعض مسلمان، جن پر کفار حکومت کرتے ہیں وہ ان کے ہاں قابل احترام ہیں وہ ان کے دین سے کوئی تعرض نہیں کرتے وہ ان کے ہاں کمزور اور ماتحت بن کر نہیں رہتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو پوری عزت عطا کی گئی ہے۔ اول و آخر اور ظاہر و باطن میں ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے۔