فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا
پھر اسی حالت میں وہ لشکر [٥] میں جاگھستے ہیں
﴿فَوَسَطْنَ بِہٖ﴾ ”پھرجا گھستے ہیں۔“ یعنی اپنے سواروں کے ساتھ ﴿جَمْعًا﴾ دشمن کے جتھوں کے درمیان جن پر دھاوا کیا ہے، جواب قسم، اللہ تعالیٰ کا یہ ارشادہے : ﴿اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ﴾ ”بے شک انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے ۔“ یعنی وہ اس بھلائی سے محروم کرنے والا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو نوازا ہے۔ انسان کی فطرت اور جبلت یہ ہے کہ اس کا نفس ان حقوق کے بارے میں جو اس کے ذمے عائد ہوتے ہیں ،فیاضی نہیں کرتا کہ ان کو کامل طور پر اور پورے پورے ادا کردے بلکہ اس کے ذمہ جو مالی یابدنی حقوق عائد ہوتے ہیں ،ان کے بارے میں اس کی فطرت میں سستی اور حقوق سے منع کرنا ہے ، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ عالی نے ہدایت سے بہر مندہ کیا اور اس نے اس وصف سے باہر نکل کرحقوق کی ادائیگی میں فیاضی کے وصف کو اختیار کرلیا۔