سورة النسآء - آیت 124

وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جو کوئی اچھے کام کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ ایمان لانے والا ہو تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ﴾ ” جو برائی کرے گا اس کی سزا پائے گا“ اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ اصول تمام عاملین کو شامل ہے کیونکہ (سوء) ” برائی“ کا اطلاق چھوٹے یا بڑے ہر قسم کے گناہ پر ہوتا ہے اسی طرح ” جزا“ میں تھوڑی یا زیادہ، دنیاوی یا اخروی ہر قسم کی جزا شامل ہے۔ اس مقام پر لوگ بے شمار درجات میں منقسم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے نیک (یا برے) اعمال بہت کم ہوں گے اور کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کے نیک (یا برے) اعمال بہت زیادہ ہوں گے۔ پس جن کے اعمال سارے کے سارے برائی پر مشتمل ہوں گے اور ایسے لوگ صرف کافر ہی ہوں گے جب ان میں سے کوئی توبہ کئے بغیر مر جائے تو اس کی جزا یہ ہوگی کہ وہ درد ناک عذاب میں ہمیشہ رہے گا۔ اور جس کے اعمال نیک ہوں گے اور وہ اپنے غالب احوال میں درست طرز عمل اپنانے والا ہوگا، البتہ کبھی کبھار اس سے چھوٹے موٹے گناہ صادر ہوجاتے رہے ہوں گے تو اس کو اپنے بدن، قلب، اپنے محبوب شخص یا مال و منال میں جو رنج و غم اور اذیت والم پہنچتے ہیں تو یہ تکالیف بھی اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ ان دو حالتوں کے درمیان بہت سے مراتب ہیں۔ عام برے عمل کی یہ جزا صرف ان لوگوں سے مخصوص ہے جو توبہ نہیں کرتے، کیونکہ گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔ جیسا کہ نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ ﴿وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّـهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا﴾ ” اور نہیں پائے گا وہ اللہ کے سوا کوئی حمایتی اور نہ کوئی مددگار“ یہ اس وہم کے ازالہ کے لئے ہے کہ شاید وہ شخص جو اپنے (برے) عمل پر بدلے کا مستحق ہے، یہ زعم رکھتا ہو کہ کبھی اس کا کوئی حمایتی یاد مددگار یا کوئی سفارشی اس سے عذاب کو دور کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کی نفی کی ہے، اس کا کوئی حمایتی نہیں ہوگا جو اس کے لئے اس کا مطلوب حاصل کرسکے اور نہ اس کا کوئی مددگار ہوگا جو اس کا ڈر دور کرسکے سوائے اس کے رب اور مالک کے۔ ﴿وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ ﴾ ” اور جو نیک اعمال کرے“ اس میں تمام اعمال قلب اور اعمال بدن شامل ہیں اور عمل کرنے والوں میں جان وانس، چھوٹا بڑا اور مرد و عورت سب داخل ہیں۔ اس لئے فرمایا : ﴿مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ﴾ ” مرد ہو یا عورت جب کہ وہ مومن ہو“ ایمان تمام اعمال کی قبولیت کے لئے اولین شرط ہے۔ کوئی عمل اس وقت تک نیک ہوسکتا ہے نہ قبول اور نہ اس پر ثواب مترتب اور نہ وہ کسی عذاب سے بچا سکتا ہے جب تک کہ عمل کرنے والا مومن نہ ہو۔ ایمان کے بغیر اعمال اس درخت کی شاخوں کی مانند ہیں جس کی جڑکاٹ دی گئی ہو اور اس عمارت کی مانند ہیں جسے پانی کی موج پر تعمیر کیا گیا ہو۔ ایمان درحقیقت وہ اصل، اساس اور قاعدہ ہے جس پر ہر چیز کی بنیاد ہے اس قید کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ہر عمل جو مطلقاً بیان کیا گیا ہو وہ ایمان کی قید سے مقید ہے۔ ﴿فَأُولَـٰئِكَ﴾ ” تو ایسے لوگ“ یعنی وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں ﴿يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ﴾ ” جنت میں داخل ہوں گے۔“ ایسی جنت میں داخل ہوں گے جو ان نعمتوں پر مشتمل ہوگی جنہیں نفس چاہتے ہیں اور آنکھیں جن سے لذت حاصل کرتی ہیں ﴿وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا ﴾ ” اور ان کی تل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔“ ان کے اعمال خیر میں ذرہ بھر بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ بلکہ وہ ان اعمال کا پورا پورا، وافر اور کئی گنا اجر پائیں گے۔