لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ
کہ ہم نے انسان کو سختی جھیلتے رہنے والا پیدا کیا ہے
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ﴾ ” بے شک ہم نے انسان کو تکلیف میں پیدا کیا ہے۔“ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ سختیاں اور مشقتیں ہیں جو انسان دنیا کے اندر برداشت کرتا ہے اور جو وہ برزخ میں اور قیامت کے دن برداشت کرے گا۔ انسان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ایسے اعمال کے لیے کوشاں رہے جو اسے ان شدائد سے (نجات دلا کر ) راحت، اس کے لیے دائمی فرحت اور سروکار کاموجب بنیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ابدا الآباد تک سخت عذاب کی مشقت برداشت کرتار ہے گا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہوں کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت اور خوب درست تخلیق کے ساتھ پیدا کیا جو سخت اعمال پر تصرف کی قدرت رکھتا ہے۔ بایں ہمہ، اس نے اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا نہیں کیا بلکہ وہ عافیت پر (جواللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی)اتراتار ہا، اپنے خالق کے سامنے تکبر کا اظہار کرتا رہا اور اپنی جہالت اور ظلم کی بنا پر یہ سمجھتا رہا کہ اس کا یہ حال ہمیشہ باقی رہے گا اور اس کے تصرف کی طاقت کبھی ختم نہیں ہوگی ،اس لیے فرمایا : ﴿اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ یَّقْدِرَ عَلَیْہِ اَحَدٌ﴾ ” کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہیں پائے گا؟“ وہ سرکشی کرتا ہے اور اس نے شہوات میں جو مال خرچ کیا ، اس پر فخر کرتا ہے۔