سورة النسآء - آیت 115

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

مگر جو شخص راہ راست کے واضح ہوجانے کے بعد [١٥٣] رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ [١٥٣۔ ١] اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا خود اس نے رخ کرلیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بری بازگشت ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا ہے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت میں آپ سے عناد رکھتا ہے ﴿مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ﴾” سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد“ یعنی دلائل قرآنی اور براہین نبویہ کے ذریعے سے ہدایت کا راستہ واضح ہوجانے کے بعد ﴿وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ﴾” اور مومنوں کے راستے کے خلاف چلے“ اہل ایمان کے راستے سے مراد ان کے عقائد و اعمال ہیں ﴿ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ﴾ ” ہم اس کو پھیر دیتے ہیں اسی طرف جس طرف وہ پھرتا ہے“ یعنی ہم اسے اور اس چیز کو جو اس نے اپنے لئے اختیار کی ہے چھوڑ کر اس سے الگ ہوجاتے ہیں اور ہم اسے بھلائی کی توفیق سے محروم کردیتے ہیں۔ کیونکہ اس نے حق کو جان بوجھ کر ترک کردیا۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی جزا عدل و انصاف پر مبنی ہے کہ وہ اسے اس کی گمراہی میں حیران و پریشان چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنی گمراہی میں بڑھتا ہی چلا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللّٰهُ قُلُوبَهُمْ﴾ (الصف :61؍5) ” جب انہوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ﴾ (الانعام :6؍110) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو پلٹ دیں گے جیسے وہ پہلی مرتبہ اس پر ایمان نہ لائے تھے (اب بھی ایمان نہ لائیں گے۔ “ ) اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف دلالت کرتا ہے کہ جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کرتا اور مومنین کے راستے کی اتباع کرتا ہے۔ اس کا مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع، اور مسلمانوں کی جماعت کی معیت کا التزام کرنا ہے، تب اگر اس سے کوئی گناہ صادر ہوتا ہے یا نفس کے تقاضے اور طبیعت کے غلبے کی بنا پر گناہ کا ارادہ کر بیٹھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے نہیں کرتا بلکہ اپنے لطف و کرم سے اس کا تدارک کرد یتا ہے اور اسے برائی سے بچا کر اس پر احسان کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴾ (یوسف: 12؍24) ” تاکہ ہم اس طرح اس سے برائی اور بے حیائی کو روک دیں بلاشبہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔“ یعنی یوسف علیہ السلام کے اخلاص کے سبب سے ان سے برائی کو دور کردیا اور اللہ تعالیٰ اپنے ہر چنے ہوئے بندے کے ساتھ یونہی کرتا ہے، جیسا کہ علت کی عمومیت اس پر دلالت کرتی ہے۔ ﴿وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ﴾ ” اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے۔“ یعنی ہم جہنم میں اسے بہت بڑے عذاب سے دوچار کریں گے ﴿وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴾” اور وہ بری جگہ ہے۔“ یعنی انجام کار یہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔ یہ وعید، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین کی مخالفت پر مرتب ہوتی ہے گناہ کے چھوٹا بڑا ہونے کے اعتبار سے اس کے بہت سے مراتب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ ان میں سے بعض مراتب ایسے ہیں جو جہنم میں خلود کا باعث ہوں گے۔ باقی تمام اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور دوری کا موجب ہیں۔ بعض گناہوں کا مرتبہ کمتر ہے۔ شاید دوسری آیت اس آیت کریمہ کے اطلاق کی تفصیل کی طرح ہے۔ یعنی شرک کو اللہ تعالیٰ کبھی نہیں بخشے گا کیونکہ شرک اللہ رب العالمین اور اس کی توحید میں نقص اور مخلوق کو جو خود اپنے نفع و نقصان کی مالک نہیں، اس اللہ کے برابر قرار دینا ہے جو نفع و نقصان کا مالک ہے، ہر قسم کی نعمت صرف اسی کی طرف سے ہے، تمام تکلیفوں کو صرف وہی دور کرنے والا ہے ہر اعتبار سے کمال مطلق اور تمام وجوہ سے غنائے تام کا وہی مالک ہے۔ سب سے بڑا ظلم اور سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ جس ہستی کی یہ عظمت و شان ہو، اس کی عبادت کے لئے اخلاص نہ ہو اور جو صفات کمال اور صفات غنا میں سے کسی چیز کی بھی مالک نہ ہو، بلکہ وہ عدم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کا وجود نیست ہے، کمال نیست ہے، بے نیازی نیست ہے اور ہر لحاظ سے محتاجی ہی محتاجی ہے۔