هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا
دیکھو! تم لوگ دنیا کی زندگی میں تو ان کی حمایت [١٤٨] میں جھگڑ رہے ہو مگر قیامت کے دن ان کی حمایت میں اللہ سے کون جھگڑے گا یا ان کا کون وکیل ہوگا ؟
﴿هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّـهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ﴾” ہاں تو یہ ہو تم لوگ کہ دنیا میں تم نے ان کی حمایت کی لیکن اللہ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا اور کون ہے جو ان کا وکیل بن کر کھڑا ہوسکے گا“ یعنی فرض کیا اس دنیا کی زندگی میں تم نے ان کی طرف سے جھگڑ لیا، تمہاری اس حمایت نے مخلوق کے سامنے ان کو عار اور فضیحت سے بچا لیا۔ تب قیامت کے روز کون سی چیز انہیں بچائے گی اور وہ اسے کیا فائدہ دے گی؟ اور قیامت کے روز جب حجت ان کے خلاف ہوگی، ان کی زبانیں، ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے کرتوتوں پر گواہی دیں گے، کون ان کی حمایت میں بولے گا؟ ﴿يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللّٰهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ ﴾ (النور :24؍25) ” اس روز اللہ ان کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ ہی برحق اور حق کو ظاہر کرنے والا ہے۔“ پس ان کی حمایت میں اس ہستی سے کون جھگڑے گا جو مخفی رازوں کو جانتی ہے جو ان کے خلاف ایسے گواہوں کو کھڑا کرے گی جن کے ہوتے ہوئے کسی کو انکار کی مجال نہ ہوگی؟ اس آیت کریمہ میں اس امر کے مقابلہ کی طرف راہنمائی فرمائی ہے جو ان موہوم دنیاوی مصالح کے مابین، جو اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کرنے اور اس کی منہیات کے ارتکاب پر مترتب ہوتے ہیں اور اس اخروی ثواب کے مابین ہوتا ہے جس سے انسان محروم یا وہاں کے عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ پس جس شخص کو اس کے نفس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے وہ اپنے آپ سے پوچھے ” تو نے سستی اور کوتاہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ترک کردیا تو اس کے عوض تو نے کون سا منافع کمایا؟ اور کتنا اخروی ثواب ہے جو تجھے حاصل ہونے سے رہ گیا؟ اور اللہ کے حکم کو ترک کرنے کے نتیجے میں کتنی بدبختی، محرومی، ناکامی اور خسارے کا سامنا کرناپڑا؟‘‘ اسی طرح جب اس کا نفس شہوات محرمہ کی طرف بلائے تو وہ اس سے مخاطب ہو کر کہے ” فرض کیا جس چیز کی تو نے خواہش کی میں نے پوری کردی، اس کی لذت تو ختم ہوجائے گی مگر یہ لذت اپنے پیچھے اتنے غم و ہموم، حسرتیں، ثواب سے محرومیاں اور عذاب چھوڑ جائے گی کہ ان کا کچھ حصہ بھی عقلمند شخص کو ان لذتوں کی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ “ یہی وہ سب سے بڑی چیز ہے جس میں تدبر بندے کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہی حقیقی عقل مندی کی خصوصیت ہے، اس شخص کے برعکس جو عقل مندی کا دعویٰ کرتا ہے مگر وہ عقلمند ہوتا نہیں۔ کیونکہ وہ اپنے ظلم و جہالت کی وجہ سے دنیا کی لذت و راحت کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس پر کیسے ہی نتائج مرتب کیوں نہ ہوں۔۔۔ واللہ المسعان