يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ
جو پشت اور سینہ کی ہڈیوں [٥] کے درمیان سے نکلتا ہے
﴿یَّخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَایِٕبِ﴾” جو نکلتی ہے پیٹھ اور سینے کے بیچ سے۔“ اس میں اس معنی کا احتمال ہے کہ (یہ منی ) مرد کی صلب سے اور عورت کے سینے ، یعنی اس کی چھاتی سے نکلتی ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ اچھل کرنکلنے والی منی جو کہ مرد کی منی ہے ، اس کا مقام ، جہاں سے وہ نکلتی ہے ، صلب اور سینے کے درمیان ہے۔ شاید یہی معنی زیادہ صحیح زیادہ ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اچھل کر نکلنے والی پانی )منی( کا وصف بیان کیا ہے جس کو محسوس کیا جاتا ہے اور اس کے اچھل کر باہر نکلنے کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ مرد کی منی ہے ۔ اسی طرح ﴿التَّرَائِبِ﴾ کا لفظ مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے ، کیونکہ مرد کا سینہ بمنزلہ عورت کی چھاتیوں کے ہے ۔اگر یہاں عورت مراد ہوتی تو کہا جاتا )بَیْنَ الصُّلْبِ وَالثَّدْیَیْن(پیٹھ اور دونوں پستانوں کے درمیان وغیرہ۔ واللّٰہ اعلم پس جس ہستی نے انسان کو اچھل کر نکلنے والے پانی سے وجود بخشا جو اس مشکل مقام سے خارج ہوتا ہے ، وہ آخرت میں اسے پیدائش کی طرف لوٹانے ، قیامت، حشر ونشر اور جزا وسزا کے لیے اس کی تخلیق کا اعادہ کرنے پر قادر ہے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ، اچھل کرنکلنے والے پانی کو واپس صلب میں لوٹانے پر قادر ہے ۔یہ معنی اگرچہ صحیح ہیں مگر آیت کریمہ سے معنی مراد یہ نہیں ، کیونکہ اس کے بعد فرمایا : ﴿یَوْمَ تُبْلَی السَّرَایِٕرُ﴾ اس دن سینے کے بھید جانچے جائیں گے اور دلوں میں جو اچھائی یا برائی ہے وہ سب چہروں کے صفحات پر آشکار ا ہوجائے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾( آل عمران :3؍106) ” جس روز کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے۔ “ دنیا کے اندر بہت سی چیزیں پوشیدہ رہتی تھیں اور لوگوں کے سامنے عیاں نہیں ہوتی تھیں۔ قیامت کے روز تو برابر کی نیکی اور فاجروں کا فسق وفجور صاف ظاہر ہوں گے اور علانیہ امور بن جائیں گے۔