قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ
کہ خندقوں والے [٣] ہلاک ہوگئے
یہاں جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے ،وہ ہے اللہ کی بڑی بڑی نشانیاں، ظاہر حکمتیں اور بے پایاں رحمت جن کو یہ قسم متضمن ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس پر قسم کھائی گئی ہے، وہ ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد : ﴿قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ﴾” ہلاک کردیے جائیں خندق (کھودنے ) والے۔“ یہ ان کے لیے ہلاکت کی بددعا ہے۔ ﴿ الْاُخْدُوْدِ﴾ سے مراد وہ گڑھے ہیں جو زمین میں کھودے جاتے ہیں۔ یہ اصحاب الاخدود (گڑھوں والے) کافر تھے اور ان کے ہاں کچھ اہل ایمان بھی تھے ۔ کفار نے ان کو اپنے دین میں داخل کرنا چاہا ، اہل ایمان نے اس سے انکار کردیا ۔ کفار نے زمین میں بڑے بڑے گڑھے بنائے ، ان کے اندر آگ جلائی اور ان کے اردگرد بیٹھ کر اہل ایمان کو آگ پر پیش کرکے ان کو آزمائش میں مبتلا کیا۔ پس ان میں جس کسی نے ان کفار کی بات مان لی ، اس کو چھوڑ دیا گیا اور جو اپنے ایمان پر ڈٹا رہا، اس کو آگ میں پھینک دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے گروہ اہل ایمان کے خلاف انتہا کو پہنچی ہوئی محاربت ودشمنی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی اور ان کو ہلاک کرڈالا اور ان کو وعید سنائی، چنانچہ فرمایا:﴿قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ﴾ پھر ﴿ الْاُخْدُوْدِ﴾ کی تفسیر اپنے اس ارشاد سے کی :﴿النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ اِذْ ہُمْ عَلَیْہَا قُعُوْدٌ وَّہُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ ﴾ ” وہ ایک آگ تھی ایندھن والی جبکہ وہ لوگ اس کے اردگرد بیٹھے تھے اور مسلمانوں کیساتھ جو کررہے تھے اس کا تماشا کررہے تھے۔“ یہ بدترین جبر اور قساوت قلبی ہے ،کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کی، ان کے ساتھ عناد رکھا اور ان آیات پر ایمان رکھنے والوں کے خلاف محاربت کی اور اس قسم کے عذاب کے ذریعے سے ان کے لیے تعذیب کو جمع کردیا جن سے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں ، نیز یہ کہ جب اہل ایمان کو آگ کے ان گڑھوں میں ڈالا گیا تو یہ اس وقت موجود تھے اور حال یہ تھا کہ وہ اہل ایمان پر ان کی صرف اس حالت کی بنا پر ناراض تھے جس پر قابل ستائش تھے اور جس سے ان کی سعادت وابستہ تھی ، یعنی وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے تھے جو غالب اور قابل تعریف ہے ، یعنی جو اس غلبے کا مالک ہے ۔ جس کی بنا پر وہ ہر چیز پر غالب ہے اور وہ اپنے اقوال وافعال اور اوصاف میں قابل تعریف ہے۔