فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلَاةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِكُمْ ۚ فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۚ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
پھر جب تم نماز ادا کر چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرو اور جب اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر پوری نماز ادا کرو۔ بلاشبہ مومنوں پر نماز اس کے مقررہ اوقات [١٤١] کے ساتھ فرض کی گئی ہے
جب تم اپنی نماز سے فارغ ہوجاؤ، یعنی نماز خوف وغیرہ سے تو اپنے تمام احوال اور تمام ہیئات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو۔ یہاں یہ حکم خاص طور پر نماز خوف کے بارے میں دیا گیا ہے، جس کے چند فائدے ہیں۔ (١) قلب کی صلاح و فلاح اور اس کی سعادت، اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی انابت اور اس کے ساتھ محبت میں پنہاں ہے نیز اس بات میں ہے کہ قلب اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی حمد و ثناء سے لبریز رہے۔ سب سے بڑا ذریعہ جس سے یہ مقصد حاصل ہوتا ہے نماز ہے جو درحقیقت بندے اور اس کے رب کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ (٢) نماز حقائق ایمان اور معارف ایقان پر مشتمل ہے جو اس امر کے موجب ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر دن اور رات کے اوقات میں نماز فرض قرار دے دے اور معلوم ہے کہ نماز خوف کے ذریعے سے یہ مقاصد حمیدہ حاصل نہیں ہوسکتے، کیونکہ قلب و بدن خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی تلافی کے لیے نماز خوف کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے۔ (٣) خوف قلب میں قلق کا موجب بنتا ہے جو کہ کمزوری کا باعث ہے۔ جب دل کمزور ہوجاتا ہے تو بدن بھی دشمن کے مقابلے میں کمزور پڑجاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی کثرت سب سے بڑی مقویات قلب سے ہے۔ (٤) صبر و استقامت کی معیت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر فوز و فلاح اور دشمنوں کے خلاف فتح و ظفر کا سبب بنتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ (الانفال :8؍45) ” اے مومنو ! اگر تمہارا کفار کی کسی جماعت کے ساتھ مقابلہ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو شاید کہ تم فلاح پاؤ۔“ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس حال میں کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اللہ تعالیٰ کی دیگر حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ﴿فَإِذَا اطْمَأْنَنتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ﴾ ” پھر جب خوف جاتا رہا تو نماز قائم کرو۔“ یعنی جب تم خوف سے مامون ہوجاؤ، تمہارے دلوں اور تمہارے ابدان کو اطمینان میسر آجائے تو نماز کو ظاہری اور باطنی طور پر اس کے تمام ارکان و شرائط اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ کامل طریقے سے ادا کرو۔ ﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴾ ” نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے“ یعنی اپنےوقت میں فرض کی گئی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض ہے اور اس کو ادا کرنے کا ایک وقت مقرر کیا گیا ہے اور نماز مقررہ وقت پر پڑھے بغیر قبول نہیں ہوتی۔ نماز کے اوقات وہی ہیں جو تمام مسلمانوں کے ہاں معروف اور متحقق ہیں نماز کے اوقات کو چھوٹے بڑے، عالم اور جاہل سب جانتے ہیں انہوں نے یہ اوقات اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ﴿ صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ ﴾ ” یسے ہی نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔“[صحيح البخاري، الأذان، باب الأذان...... الخ، حديث: 631] اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” مومنوں پر“ دلالت کرتا ہے کہ نماز ایمان کی میزان ہے اور بندہ مومن کے ایمان کی مقدار کے مطابق نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ کفار، جو اگرچہ اہل ذمہ کی طرح مسلمانوں کے احکام و قوانین پر عمل کرنے کے پابند ہیں، تاہم وہ فروع دین میں مخاطب نہیں مثلاً نماز وغیرہ اس لیے ان کو نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ جب تک وہ اپنے کفر پر قائم ہیں ان کی نماز صحیح نہیں البتہ ان کو نماز اور دیگر تمام احکام کو ترک کرنے پر آخرت میں سزا دی جائے گی۔