إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا
مگر جو مرد، عورتیں اور بچے فی الواقع کمزور اور [١٣٥] بے بس ہیں اور وہاں سے نکلنے کی کوئی تدبیر اور راہ نہیں پاتے، امید ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو معاف فرما دے
اس آیت کریمہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ ہجرت سب سے بڑا فرض ہے اور اس کو ترک کرنا حرام بلکہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جس شخص نے وفات پائی اس نے اپنا وہ رزق، عمر اور عمل پورا کرلیا جو اس کے لیے مقدر کیا گیا تھا۔ یہ دلیل لفظ ”توفی“ سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اگر اس نے وہ سب کچھ پورا نہیں کیا جو اس کے لیے مقدر کیا گیا تھا تو لفظ ’’ توفی“ کا اطلاق صحیح نہیں۔ اس آیت میں فرشتوں پر ایمان لانے اور ان کی مدح کی دلیل بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اثبات، ان کی تحسین اور اپنی موافقت کے انداز میں فرشتوں سے خطاب کیا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حقیقی مستضعفین کو مستثنیٰ قرار دیا جو کسی وجہ سے ہجرت کرنے پر قادر نہیں۔ فرمایا: ﴿وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا ﴾” نہ وہ کوئی راستہ جانتے ہیں۔“ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جو کوئی کسی امر واجب کی تعمیل کرنے سے عاجز ہو وہ معذور ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد سے عاجز رہنے والوں کے بارے میں فرمایا :﴿لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ ﴾ (افتح :48؍ 17) ” نہ تو اندھے کے لیے کوئی گناہ ہے نہ لنگڑے پر اور نہ بیمار پر“ اور تمام احکام کی عمومی اطاعت کے بارے میں فرمایا : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ (التغابن :64؍ 16) ” اپنی استطاعت بھر اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیءٍ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ) ” جس چیز کا میں تمہیں حکم دوں مقدور بھر اس پر عمل کرو“[صحیح مسلم، الحج، باب فرض الحج مرۃ فی العمر، حدیث :1337] جب انسان پوری کوشش کرتا ہے مگر اس پر ہر قسم کے حیلے کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں تب اس صورت میں وہ گناہ گار نہیں ہوتا کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً ﴾ ” وہ کوئی تدبیر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے“ یعنی وہ لاچار ہیں۔ آیت میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ حج و عمرہ اور اس قسم کی دیگر عبادات میں جن میں سفر کی ضرورت پیش آتی ہے، رہنمائی کرنے والے کا ہونا بھی ” استطاعت“ کی شرطوں میں سے ہے۔