سورة النسآء - آیت 80

مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

جس کسی نے رسول کی اطاعت کی تو اس [١١٢] نے اللہ کی اطاعت کی اور اگر کوئی منہ موڑتا ہے تو ہم نے آپ کو ان پر پاسبان بناکر نہیں بھیجا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یعنی ہر وہ شخص جس نے اوامرونواہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ﴿فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾ ” اس نے اللہ کی اطاعت کی۔“ کیونکہ اگر آپ کسی چیز کا حکم دیتے یا کسی چیز سے روکتے ہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی شریعت، اس کی وحی اور تنزیل ہے۔ یہ آیت کریمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کی دلیل ہے۔ (کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے، لہٰذا اگر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہنچانے کے بارے میں معصوم نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ آپ کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا اور اطاعت کرنے والوں کی مدح نہ فرماتا۔ اور اس کا شمار مشترکہ حقوق میں ہوتا ہے۔ یہ حقوق تین اقسام میں منقسم ہوتے ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ کا حق۔ یہ حق مخلوق میں سے کسی کے لیے نہیں ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی طرف رغبت ہے اور ان کے توابع ہیں۔ (٢) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق، جو صرف آپ کے ساتھ مختص ہے وہ ہے آپ کی توقیر، آپ کا احترام اور آپ کی مدد کرنا۔ (٣) حقوق کی تیسری قسم اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان مشترکہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، ان سے محبت کرنا اور ان کی اطاعت کرنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان حقوق کو اس آیت کریمہ میں جمع کردیا ہے : ﴿لِّتُؤْمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلً﴾ (الفتح :48؍ 9) ” تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اس کی مدد اور اس کی توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو۔ “ پس جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اس کے لیے وہی ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مترتب ہوتا ہے ﴿وَ مَنْ تَوَلّٰي﴾ ” اور جس نے (اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے) منہ موڑا“ وہ صرف اپناہی نقصان کرتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نقصان نہیں کرسکتا۔ ﴿فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ﴾ ” ہم نے آپ کو ان کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔“ یعنی ہم نے آپ کو اس لیے مبعوث نہیں کیا کہ آپ ان کے اعمال و احوال کی نگہبانی کریں، بلکہ ہم نے تو آپ کو مبلغ، کھول کھول کر بیان کرنے والا اور ناصح بنا کر بھیجا ہے اور آپ نے اپنا فرض ادا کردیا ہے آپ کے لیے آپ کا اجر واجب ہوگیا۔ خواہ وہ راہ راست اختیار کریں یا نہ کریں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ ﴾ (الغاشیہ :88؍21-22) ” تم ان کو نصیحت کرتے رہو اور تم صرف نصیحت کرنے والے ہی ہو۔ تم ان پر نگہبان نہیں۔ “