سورة النسآء - آیت 78

أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

جہاں کہیں بھی تم ہو، موت تمہیں آ ہی لے گی خواہ تم مضبوط [١٠٨] قلعوں میں محفوظ ہوجاؤ۔ اور اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچے تو کہتے ہیں کہ ''یہ اللہ کی طرف سے پہنچا ہے'' اور اگر کوئی مصیبت پڑجائے تو کہتے ہیں کہ : یہ تمہاری وجہ سے [١٠٩] پہنچی ہے'' آپ (ان سے) کہئے کہ :''سب کچھ ہی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے'' آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ بچاؤ کی تدبیر تقدیر کے مقابلے میں کوئی کام نہیں آسکتی اور گھر میں بیٹھ رہنے والے کا بیٹھنا، اللہ کی تقدیر کو ہٹا نہیں سکتا۔ ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ﴾ ” تم جہاں کہیں بھی رہو موت تمہیں آ پکڑے گی“ یعنی تم کسی زمانے میں اور کسی بھی جگہ پر ہو ﴿وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ﴾ ” خواہ تم مضبوط قلعوں اور اونچے محلوں میں ہی پناہ کیوں نہ لے لو (موت تمہیں پا لے گی۔ “ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کی ترغیب کے لیے ہے اللہ تعالیٰ کبھی تو جہاد کی فضیلت اور اس کا ثواب بیان کر کے اس کی ترغیب دیتا ہے اور کبھی جہاد کو ترک کرنے کی سزا سے ڈرا کر جہاد پر آمادہ کرتا ہے۔ کبھی اس بارے میں آگاہ کر کے جہاد کے لیے ابھارتا ہے کہ جہاد سے جی چرا کر گھروں میں بیٹھ رہنے والوں کا بیٹھنا کسی کام نہیں آتا اور کبھی کبھی اللہ تعالیٰ جہاد کے راستے کو ان کے لیے آسان کردیتا ہے۔ ﴿وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ﴾ ” اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے“ اللہ تبارک و تعالیٰ ان لوگوں کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جو علم نہیں رکھتے، انبیاء و رسل کی تعلیمات سے روگردانی اور ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ جب انہیں کوئی بھلائی مثلاً شادابی، کثرت مال، کثرت اولاد اور صحت وغیرہ حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں ﴿هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ﴾ ” یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔“ جب انہیں کسی تکلیف مثلاً قحط، فقر و فاقہ، احباب و اولاد کی موت اور مرض وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے تو پکار اٹھتے ہیں ﴿هَـٰذِهِ مِنْ عِندِكَ﴾ ” یہ (تکلیف) آپ کی وجہ سے (ہمیں پہنچی) ہے۔“ یعنی اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ تمام مصیبت اس کے سبب سے آن پڑی ہے جو آپ لے کر آئے ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے بدشگونی لی، جیسا کہ ان سے پہلے کفار اللہ تعالیٰ کے رسولوں سے براشگون لیتے رہے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی قوم کے بارے میں خبر دی ہے : ﴿فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ) (الاعراف :7؍131) ” جب ان کو کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہماری وجہ سے ہے اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچتی ہے تو موسیٰ اور ان کے اصحاب کی بدشگونی قرار دیتے ہیں“ اور جیسا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے کہا : ﴿اطَّيَّرْنَا بِكَ وَبِمَن مَّعَكَ﴾ (النمل:27؍47) ” تم اور تمہارے ساتھی ہمارے لیے بدشگونی کا باعث ہیں“ اور جیسے سورۃ یٰسین میں مذکور قوم نے اپنے رسولوں سے کہا : ﴿إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ ﴾ (یٰسین :36؍18) ” ہم تمہیں بدشگون سمجھتے ہیں اگر تم باز نہیں آؤ گے تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ “ چونکہ کفر کی وجہ سے ان کے دل باہم مشابہ ہیں اس لیے ان کے اقوال و افعال میں بھی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر وہ شخص جو برائی کے حصول اور بھلائی کے زوال کو انبیائے کرام کی تعلیمات یا بعض تعلیمات سے منسوب کرتے ہیں وہ اس مذمت میں داخل ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے : ﴿ ﴿قُلْ كُلٌّ ﴾ ” کہہ دیجیے کہ سب“ یعنی نیکی اور برائی خیر اور شر ﴿مِّنْ عِندِ اللَّـهِ﴾ ” اللہ ہی کی طرف سے ہے۔“ ” یعنی سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے اور اسی کی تخلیق ہے۔ ﴿فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ﴾” انہیں کیا ہوگیا ہے؟“ یعنی جن لوگوں سے یہ باطل قول صادر ہوا ہے۔ ﴿ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ ” کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔“ یعنی یہ لوگ بات کو بالکل ہی نہیں سمجھ پاتے اور نہ یہ لوگ سمجھنے کے قریب جاتے ہیں یا یہ لوگ بات کو بہت ہی کم سمجھتے ہیں۔ مذکورہ تمام معنی کے مطابق یہ آیت کریمہ ان کے عدم فہم اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں عدم تفقہ پر زجر و توبیخ ہے اور اس کا سبب ان کا کفر اور روگردانی ہے۔ اس آیت کریمہ میں ضمناً ان لوگوں کی مدح کا پہلو نکلتا ہے جو اللہ تعالیٰ ٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا فہم رکھتے ہیں، نیز اس میں فہم اور اس کے اسباب کے حصول کی ترغیب ہے۔ یہ فہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے کلام میں تدبر و تفکر اور اس منزل تک پہنچانے والے راستوں پر گامزن ہونے ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھا ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ نیکی اور برائی اور خیر و شر سب اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے کوئی چیز باہر نہیں، نیز انبیاء و رسل اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات کبھی شر کا باعث نہیں ہوتیں کیونکہ وہ تو دین و دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے مبعوث کئے جاتے ہیں۔