نَّحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ۖ وَإِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا
ہم نے ہی انہیں پیدا کیا اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے اور جب ہم چاہیں ایسے ہی اور لوگ [٣١] (ان کی جگہ) لے آئیں۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی موت کے بعد دوبارہ زندگی پر، عقلی دلیل سے استدلال کیا ہے اور یہ ابتدائے تخلیق کی دلیل ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿نَحْنُ خَلَقْنٰہُمْ﴾ یعنی ہم ان کو عدم سے وجود میں لائے۔ ﴿وَشَدَدْنَآ اَسْرَہُمْ ﴾ یعنی ہم نے ان کی تخلیق کو اعصاب، رگوں، پٹھوں، ظاہری اور باطنی قوٰی کے ذریعے سے محکم کیا، یہاں تک کہ جسم تکمیل کی منزل پر پہنچ گیا اور ہر اس فعل پر قادر ہوگیا جو وہ چاہتا تھا۔ پس وہ ہستی جو انہیں اس حالت پر وجود میں لائی ہے، وہ ان کے مرنے کے بعد ان کو جزا وسزا دینے کے لیے انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے اور وہ ہستی جس نے اس دنیا میں ان کو ان مراحل میں سے گزرا ہے ،اس کی شان کے لائق نہیں کہ وہ ان کو بے کار چھوڑ دے، ان کو حکم دیا جائے نہ ان کو روکا جائے، ان کو ثواب عطا کیا جائے نہ عذاب دیا جائے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿بَدَّلْنَآ اَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلًا﴾ ” ان کے بدلے انہی کی طرح اور لوگ لے آئیں“ یعنی ہم نے انہیں روز قیامت دوبارہ اٹھنے کے لیے تخلیق کیا ہے، ہم نے ان کے اعیان، ان کے نفوس اور ان کی امثال کا اعادہ کیا۔