يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَكُمْ فَانفِرُوا ثُبَاتٍ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا
اے ایمان والو! اپنے بچاؤ کا سامان ہر وقت اپنے پاس رکھو،[١٠٠] پھر خواہ الگ الگ دستوں کی شکل میں کوچ کرو یا سب اکٹھے مل کر کرو
اللہ تبارک و تعالیٰ اپن مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے کفار دشمنوں سے چوکنے رہو۔ یہ حکم ان تمام اسباب کو شامل ہے جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتے ہیں۔ جن کے ذریعے سے دشمن کی چالوں اور سازشوں کو ناکام بنایا جاتا اور اس کی قوت کو توڑا جاتا ہے۔ مثلاً قلعہ بندیوں اور خندقوں کا استعمال، تیر اندازی اور گھوڑ سواری سیکھنا اور ان تمام صنعتوں کا علم حاصل کرنا جو دشمن کے خلاف جنگ میں مدد دیتا ہے، وہ علوم سیکھنا جن کے ذریعے سے دشمن کے داخلی اور خارجی حالات اور ان کی سازشوں سے باخبر رہا جا سکے اور اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلنا۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَانفِرُوا ثُبَاتٍ﴾ ” جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو۔“ یعنی متفرق ہو کر جہاد کے لیے نکلو اور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک جماعت یا لشکر جہاد کے لیے نکلے اور دیگر لوگ مقیم رہیں ﴿ أَوِ انفِرُوا جَمِيعًا ﴾ ” یا تمام کے تمام جہاد کے لیے نکلو۔“ یہ سب کچھ مصلحت، دشمن پر غلبہ حاصل کرنے اور دین میں مسلمانوں کی راحت کے تابع ہے۔ اس آیت کریمہ کی نظیر اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ ﴾ (الانفال :8؍60) ” جہاں تک ہو سکے دشمن کے مقابلہ کے لیے فوجی قوت تیار کرو۔ “