هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا
کیا انسان پر لامتناہی زمانہ [١] سے ایک وقت ایسا بھی آیا ہے جب کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ؟
اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے ابتدائی ، اس کے انتہائی اور اس کے متوسط احوال بیان فرمائے ہیں ، چنانچہ فرمایا کہ اس پر ایک طویل زمانہ گزرا ہے اور ویہ وہ زمانہ ہے جو اس کے وجود میں آنے سے پہلے تھا اور وہ ابھی پردہ عدم میں تھا بلکہ وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس کے باپ آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا ، پھر اس کی نسل کو مسلسل بنایا ﴿ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ ﴾ ” نطفہ مخلوط سے“ یعنی حقیر اور گندے پانی سے بنایا ﴿ نَّبْتَلِيهِ ﴾ ہم اس کے ذریعے اس کو آزماتے ہیں تاک ہم جان لیں کہ آیا وہ اپنی پہلی حالت کو چشم بصیرت سے دیکھ اور اس کو سمجھ سکتا ہے یا اس کو بھول جاتا ہے ۔ اور اس کو اس کے نفس نے فریب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا ،اس کے ظاہری اور باطنی قوٰی، مثلا : کان، آنکھیں اور دیگر اعضا تخلیق کیے، ان قوٰی کو اس کے لیے مکمل کیا ، ان کو صحیح سالم بنایا تاکہ وہ ان قوی کے ذریعے سے اپنے مقاصد کے حصول پر قادر ہو ، پھر اس کی طرف اپنے رسول بھیجے ،ان پر کتابیں نازل کیں اسے وہ راستہ دکھایا جو اس کے پاس پہنچاتا ہے ، اس راستے کو واضح کیا اور اسے اس راستے کی ترغیب دی اور اسے ان نعمتوں کے بارے میں بتایا جو اسے اس کے پاس پہنچنے پر حاصل ہوں گی ۔ پھر اس راستے سے خبردار کیا جو ہلاکت کی منزل تک پہنچاتا ہے، اسے اس راستے سے ڈرایا ، اسے اس بات سے بھی آگاہ کیا کہ جب وہ اس راستے پر چلے گا تو اسے کیا سزا ملے گی اور وہ کس عذاب میں مبتلا ہوگا۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے بندوں کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے: اول: اس نعمت پر شکر ادا کرنے والا بندہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اس کو بہرہ مند کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان حقوق کو ادا کرنے والا جن کی ذمہ داری کا بوجھ اللہ تعالیٰ نے اس پر ڈالا ہے۔ ثانی: نعمتوں کی ناشکری کرنے والا، اللہ تعالیٰ نے اس کو دینی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند کیا مگر اس نے ان نعمتوں کو ٹھکرادیا اور اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اور اس راستے پر چل نکلا جو ہلاکت کی گھاٹیوں میں لے جاتا ہے۔