ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ
پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے
﴿ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾ یعنی اس کے معانی کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کے الفاظ اور معانی ، دونوں کی حفاظت کا وعدہ فرمایا اور یہ حفاظت کا بلند ترین درجہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے ادب کے لیے اس پر عمل کیا، لہٰذا اس کے بعد جب جبرائیل علیہ السلام آپ کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے تو آپ خاموش رہتے اور جب جبرائیل علیہ السلام قراءت سے فارغ ہوجاتے تو پھر آپ پڑھتے۔ اس آیت کریمہ میں علم حاصل کرنے کے لیے ادب سکھایا گیا ہے کہ معلم نے جس مسئلہ کو شروع کیا ہو، اس سے معلم کے فارغ ہونے سے پہلے طالب علم کو جلدی نہیں کرنی چاہیے ۔ جب وہ اس مسئلہ سے فارغ ہوجائے تو پھر طالب علم کو جو اشکال ہو اس کے بارے میں معلم سے سوال کرے ۔اسی طرح جب کلام کی ابتدا میں کوئی ایسی چیز ہو جس کو رد کرنا واجب ہو یا کوئی ایسی چیز جو مستحسن ہو تو اس کلام سے فارغ ہونے سے قبل اس کو رد یا قبول کرنے میں جلدی نہ کرے تاکہ اس میں جو حق یا باطل ہے وہ اچھی طرح واضح ہوجائے اور اسے اچھی طرح سمجھ لے تاکہ اس میں صواب کے پہلو سے کلام کرسکے۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے سامنے جس طرح قرآن کے الفاظ کو بیان فرمایا ہے، اسی طرح آپ نے اس کے معانی کو بھی ان کے سامنے بیان فرمایا۔