سورة النسآء - آیت 63

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

ایسے لوگوں کے دلوں [٩٥] میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے سو آپ ان سے اعراض کیجئے [٩٦] اور نصیحت کیجئے اور ایسی بات کہئے جو ان کے دلوں میں اتر جائے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ يَعْلَمُ اللَّـهُ مَا فِي قُلُوبِهِمْ ﴾ ” یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کےنفاق اور برے مقاصد کو جانتا ہے۔﴿ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ﴾ کی پروانہ کیجیے اور جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس پر دھیان نہ دیجیے ﴿ وَعِظْهُمْ ﴾ ” اور انہیں نصیحت کریں۔“ یعنی انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی ترغیب دیتے ہوئے اور ترک اطاعت پر انہیں ڈراتے ہوئے ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا حکم بیان کیجیے۔ ﴿وَقُل لَّهُمْ فِي أَنفُسِهِمْ قَوْلًا بَلِيغًا  ﴾ ” اور ان سے وہ بات کیجیے جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو“ یعنی اپنے درمیان اور ان کے درمیان معاملے کو راز رکھتے ہوئے انہیں نصیحت کیجیے۔ حصول مقصد کے لیے یہ طریقہ زیادہ مفید ہے اور ان کو برائیوں سے روکنے اور زجر و توبیخ میں پوری کوشش سے کام لیجیے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہگار کے ساتھ اگر اعراض کیا جائے تو پوشیدہ طور پر اس کے لیے خیر خواہی کا اہتمام ضرور کیا جائے اور اس کو نصیحت کرنے میں پوری کوشش سے کام لیا جائے جس سے وہ اپنا مقصد حاصل کرسکے۔