سورة النسآء - آیت 60

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے نبی!) آپ نے ان لوگوں کے حال پر غور کیا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے، اس پر بھی ایمان لائے ہیں اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتارا گیا تھا مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت [٩٢] کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کے فیصلے تسلیم نہ کریں اور شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں گمراہ کرکے بہت دور تک لے جائے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ منافقین کی حالت کے بارے میں اپنے بندوں پر تعجب کا اظہار کرتا ہے۔ ﴿ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا  ﴾” جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان رکھتے ہیں۔“ یعنی وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس چیز پر ایمان لائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تھا۔ بایں ہمہ ﴿ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ ﴾ ” وہ چاہتے ہیں کہ وہ فیصلے طاغوت کی طرف لے جائیں۔“ ہر وہ شخص جو شریعت الٰہی کے بغیر فیصلے کرتا ہے طاغوت ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ ﴿وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بِهِ  ﴾” انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔“ ان کا یہ رویہ اور ایمان کیسے اکٹھے ہوسکتے ہیں کیونکہ ایمان اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کی پیروی کی جائے اور اس کی تحکیم کو قبول کیا جائے۔ پس جو کوئی مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو چھوڑ کر طاغوت کے فیصلے کو قبول کرتا ہے وہ جھوٹا ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ شیطان نے ان کو گمراہ کردیا ہے ﴿ وَيُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا  ﴾ ” اور شیطان تو چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر راستے سے دور کر دے۔“ یعنی شیطان چاہتا ہے کہ وہ انہیں حق سے دور کر دے۔