سورة النسآء - آیت 59

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اے ایمان والو! اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان حاکموں کی بھی جو تم میں سے ہوں۔ پھر اگر کسی بات پر تمہارے درمیان جھگڑا پیدا ہوجائے تو اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو۔ [٩١] یہی طریق کار بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور یہ اطاعت اللہ اور اس کے رسول کے مشروع کردہ واجبات و مستحبات پر عمل اور ان کی منہیات سے اجتناب ہی کے ذریعے سے ہوسکتی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے اولوالامر کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اولوالامر سے مراد لوگوں پر مقرر کردہ حکام، امراء اور اصحاب فتویٰ ہیں کیونکہ لوگوں کے دینی اور دنیاوی معاملات اس وقت تک درست نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اولوالامر کی اطاعت نہیں کرتے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اولوالامر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری ہرگز جائز نہیں۔ شاید یہی سرنہاں ہے کہ اولوالامر کی اطاعت کے حکم کے وقت فعل کو حذف کردیا گیا ہے اور اولو الامر کی اطاعت کو رسول کی اطاعت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم دیتے ہیں لہٰذا جو کوئی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتا ہے وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ رہے اولوالامر تو ان کی اطاعت کے لیے یہ شرط عائد کی ہے کہ ان کا حکم معصیت نہ ہو۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ لوگ اپنے تمام تنازعات کو، خواہ یہ اصول دین میں ہوں یا فروع دین میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹائیں، یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف کیونکہ تمام اختلافی مسائل کا حل قرآن و سنت میں موجود ہے یا تو ان اختلافات کا حل صراحت کے ساتھ قرآن اور سنت میں موجود ہوتا ہے یا ان کے عموم، ایماء، تنبیہ، مفہوم مخالف اور عموم معنی میں ان اختلافات کا حل موجود ہوتا ہے اور عموم معنی میں اس کے مشابہہ مسائل میں قیام کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر دین کی بنیاد قائم ہے ان دونوں کو حجت تسلیم کئے بغیر ایمان درست نہیں۔ اپنے تنازعات کو قرآن و سنت کی طرف لوٹانا شرط ایمان ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ﴾ ” اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔“ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی نزاعی مسائل کو قرآن و سنت پر پیش نہیں کرتا وہ حقیقی مومن نہیں بلکہ وہ طاغوت پر ایمان رکھتا ہے، جیسا کہ بعد والی آیت میں ذکر فرمایا ہے۔ ﴿ذَٰلِكَ  ﴾” یہ“ یعنی تنازعات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹانا ﴿خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ ” یہ بہت بہتر ہے اور با اعتبار انجام کے بہت اچھا ہے“ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ سب سے اچھا فیصلہ ہے۔