يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ أَجَلَ اللَّهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ ۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دے گا اور جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجائے تو اس میں تاخیر نہ ہوگی۔ کاش تم یہ بات جان لو
﴿وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى﴾ یعنی اس دنیا میں تمہیں متمتع کرے گا اور ایک مدت مقررہ تک ہلاکت کو تم سے دور ہٹا دے گا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے دنیا میں باقی رہنے کی مقدار ایک محدودوقت تک موخر کردی جائے گی اور یہ متاع ابدی نہیں ہے ، موت کو ضرور آنا ہے ،اس لیے فرمایا : ﴿إِنَّ أَجَلَ اللّٰـهِ إِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَّرُ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾” جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو تاخیر نہیں ہوتی، کاش تم جانتے ہوتے۔“ تو تم اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے نہ حق کے ساتھ عناد رکھتے۔ پس انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو قبول کیا نہ ان کے حکم کی اطاعت کی تو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے شکوہ کرتے ہوئے عرض کیا : ﴿رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَائِي إِلَّا فِرَارًا﴾ ” میرے رب ! میں اپنی قوم کو دن رات بلاتا رہا، لیکن وہ میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے۔“ یعنی حق سے نفرت اور اس سے روگردانی میں اضافہ ہی ہوا، پس دعوت کا کوئی فائدہ باقی نہ رہا کیونکہ دعوت کا فائدہ تب ہے کہ دعوت کے تمام مقاصد یا ان سے کچھ مقاصد حاصل ہوں۔