سورة النسآء - آیت 48

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اگر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو یہ گناہ وہ کبھی معاف نہ [٨٠] کرے گا اور اس کے علاوہ جو گناہ ہیں، وہ جسے چاہے معاف بھی کردیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنایا اس نے بہتان باندھا۔ اور بہت بڑے گناہ کا کام کیا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ وہ اس شخص کو کبھی نہیں بخشے گا جس نے مخلوق میں سے کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا۔ اس کے علاوہ اگر اس نے چاہا اور اس کی حکمت مقتضی ہوئی تو وہ تمام چھوٹے بڑے گناہ بخش دے گا۔ شرک سے کمتر گناہوں کی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سے اسباب مقرر فرمائے ہیں مثلاً برائیوں کو مٹانے والی نیکیاں، دنیا اور برزخ میں نیز قیامت کے روز گناہوں کا کفارہ بننے والے مصائب، اہل ایمان کی ایک دوسرے کے لیے مفغرت کی دعائیں، شفاعت اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت جس کے سب سے زیادہ مستحق اہل ایمان و توحید ہیں۔ جب کہ شرک کا معاملہ اس کے برعکس ہے مشرک نے خود اپنے لیے مغفرت کا دروازہ بند کرلیا اس نے خود اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی راہیں مسدود کرلیں۔ توحید کے بغیر نیکیاں اسے کوئی نفع نہ دیں گی اور توحید کے بغیر مصائب اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ فَمَا لَنَا مِن شَافِعِينَ وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ﴾(الشعراء :26؍100 ،101) ” کافر قیامت کے دن کہیں گے پس آج نہ کوئی ہمارا سفارشی ہے اور نہ کوئی جگری دوست۔ “ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴾ ” اور جو اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بہتان باندھا“ یعنی اس نے بہت بڑے جرم کا بہتان باندھا۔ اس سے بڑا کون سا ظلم ہوسکتا ہے کہ کوئی اس مخلوق کو جو مٹی سے تخلیق کی گئی، جو ہر پہلو سے ناقص ہے اور ہر لحاظ سے بذاتہ محتاج ہے۔ جس کا بندے کو کوئی نفع و نقصان پہنچانا، اس کو زندہ کرنا، مارنا اور پھر اسے دوبارہ زندہ کرنا تو کجا وہ تو اپنے آپ کی بھی مالک نہیں، اس ہستی کے برابر ٹھہرائے جو ہر چیز کی خالق ہے، جو ہر لحاظ سے کامل ہے، جو بذاتہ اپنی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں نفع و نقصان، عطا کرنا اور محروم کرنا سب کچھ ہے۔ مخلوق کے پاس جو بھی نعمت ہے وہ اسی کی عطا و بخشش ہے۔ تب کیا اس ظلم سے بڑی کوئی اور چیز ہے؟ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے حتمی طور پر مشرک کو دائمی عذاب اور ثواب سے محرومی کی وعید سنائی۔﴿ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ ﴾ (المائدہ :5؍72) ”بے شک جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے“ یہ آیت کریمہ غیر تائب کے بارے میں ہے۔ رہا تائب تو اللہ تعالیٰ توبہ کرنے پر شرک اور دیگر تمام گناہ بخش دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا : ﴿قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ ﴾ (الزمر :39؍53):” کہہ دو اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ بے شک اللہ تمام گناہ بخش دیتا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کے گناہ بخش دیتا ہے جو توبہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلیتا ہے۔