فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
چنانچہ ان کے پروردگار نے انہیں برگزیدہ کیا [٢٧] اور صالحین میں شامل کردیا
﴿ فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ ﴾ پس اللہ تعالیٰ نے ان کو منتخب کرلیا اور ان کو ہر کدورت سے پاک کردیا ﴿ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ ﴾ ” اور ان کو نیکوکاروں میں سے کردیا۔“ یعنی وہ لوگ جن کے اعمال واقوال اور نیت واحوال درست ہیں۔ ہمارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی، پس اپنے رب کے فیصلے پر ایسا صبر کیا کہ کائنات میں کوئی شخص صبر کے اس درجے کو نہیں پاسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے انجام کار آپ کے لیے متعین کردیا ﴿ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴾( الاعراف:7؍128)” اور بہتر انجام متقین کے لیے ہے۔“ آپ کے دشمنوں کو اس میں اس چیز کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا جو ان کو بری لگتی تھی حتیٰ کہ ان کی بڑی خواہش تھی کہ وہ آپ کو غصے کی نظر سے گھور کر دیکھیں، حسد، کینہ اور غیظ وغضب کی بنا پر آپ کو نظر لگادیں ۔ یہ تھی اذیت فعلی میں ان کی انتہائے قدرت اور اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ وناصر تھا۔ رہی اذیت قولی تو جوجی میں آتا تھا اس کے مطابق مختلف باتیں کہتے تھے ۔ کبھی کہتے تھے کہ یہ مجنون ہے کبھی کہتے تھے شاعر ہے اور کبھی کہتے تھے جادوگر ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا :﴿ وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعَالَمِينَ ﴾ یعنی یہ قرآن عظیم اور ذکر حکیم جہان والوں کے لیے نصیحت کے سوا کچھ نہیں جس کے ذریعے سے وہ اپنے دینی اور دنیاوی مصالح میں نصیحت حاصل کرتے ہیں۔۔ اور ہر قسم کی ستائش اللہ تتعالیٰ کے لیے ہے۔