عَسَىٰ رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ
کچھ بعید نہیں۔ ہمارا پروردگار ہمیں اس کے بدلے میں اس سے اچھا باغ عطا فرمائے۔ ہم اپنے پروردگار کی طرف راغب ہوتے ہیں۔
﴿ عَسَىٰ رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ ﴾۔ پس انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس سے بہتر عطا کرے گا اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہوں گے اور اس دنیا میں اس کے سامنے اصرار کے ساتھ التجائیں کرتے رہیں گے۔ پس اگر وہ ایسے ہی تھے جیسے وہ کہتے تھے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کے حال کو بدل دیا ہوگا کیونکہ جو کوئی صدق دل سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے، اس کی طرف راغب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ امید وابستہ کرتا ہے تو وہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے وہ اسے عطا کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو کچھ وقوع پذیر ہوا، اسے بیان کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ كَذٰلِكَ الْعَذَابُ ﴾ یعنی اس شخص کے لیے اسی طرح دنیاوی عذاب ہے جو عذاب کے اسباب کو اختیار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے وہ چیز سلب کرلے جس کی بنیاد پر اس نے سرکشی اور بغاوت کارویہ اپنایا اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، نیز یہ کہ وہ اس سے وہ چیز زائل کردے جس کا وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہے۔