وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
اور تم خواہ چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے' وہ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔
یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے اپنے وسیع علم، بے پایاں لطف وکرم کے بارے میں خبر ہے، چنانچہ فرمایا :﴿ وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ﴾ ”اور تم پوشیدہ کہو یا ظاہر“ یعنی اس کے لیے دونوں برابر ہیں، دونوں میں سے کوئی بات اس سے چھپی نہیں رہ سکتی، پس ﴿ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ﴾ وہ سینے میں چھپی ہوئی نیتوں اور ارادوں کو بھی جانتا ہے ، وہ ان اقوال کو کیوں کر نہیں جانتا جن کو سنا جاسکتا ہے اور جن کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم پر عقلی دلیل سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا :﴿ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ﴾ یعنی وہ ہستی جس نے مخلوق کو نہایت مہارت سے اور بہترین طریقے سے پیدا کیا وہ سینوں کے بھید کیونکر نہ جانتی ہوگی؟ ﴿ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ﴾ اس کے علم وخبر بہت لطیف ہیں حتیٰ کہ وہ سینے کے بھیدوں، ضمیر کے رازوں، تمام چھپی ہوئی چیزوں، خفیہ امور اور غیوب کو جانتا ہے، وہی ہے جو ﴿ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى ﴾ (طه:20؍7) ”چھپی ہوئی اور پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے۔ “ (اللَّطِيفُ) کے معانی میں سے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے بندے اور دوست کے ساتھ نہایت لطف وکرم سے پیش آتا ہے، اس کے ساتھ احسان اور نیکی اس طرح کرتا ہے کہ اسے شعور تک نہیں ہوتا، وہ اسے شر سے ایسے بچاتا ہے جس کا اسے وہم وگمان نہیں ہوتا، وہ اسے ایسے اسباب کے ذریعے سے اعلیٰ مراتب پر فائز کرتا ہے جو بندے کے تصور میں بھی نہیں ہوتے یہاں تک کہ وہ اسے ناگوار حالات کا مزا چکھاتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اسے جلیل القدر محبوبات اور اعلیٰ مطالب ومقاصد تک پہنچائے۔