ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ
اللہ کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کو بطور مثال بیان کرتا ہے۔ وہ دونوں ہمارے بندوں میں سے صالح بندوں کے نکاح میں تھیں مگر انہوں نے اپنے شوہروں [٢١] سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلہ میں اپنی بیویوں کے کچھ بھی کام نہ آسکے [٢٢]۔ اور ان سے کہہ دیا گیا کہ : جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ۔
یہ دو مثالیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور کافروں کے لیے بیان کی ہیں تاکہ ان پر واضح ہوجائے کہ کافر کامومن کے ساتھ اتصال اور مومن کا قرب کافر کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور مومن کا کافر کے ساتھ اتصال ہو،مومن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتااگر مومن فرائض کو پورا کرتا ہے ۔گویا اس میں ازواج مطہرات کے لیے معصیت سے بچنے کی تنبیہ ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتصال ان کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا اگر انہوں نے برائی کی ہے، چنانچہ فرمایا :﴿ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍ کَانَتَا﴾ ”اللہ نے کافروں کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہیں ،یہ دونوں تھیں۔ “یعنی دونوں عورتیں ﴿تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ﴾ ”ہمارے بندوں میں سے دو صالح بندوں کے گھر میں۔“ اور یہ تھے حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام ﴿ فَخَانَتَاهُمَا ﴾ ”پس انہوں نے دونوں کی خیانت کی۔“ یعنی دین میں (ان دونوں نے نبیوں کی خیانت کی) دونوں اپنے شوہروں کے دین کے سوا کسی اور دین پر تھیں ۔خیانت سے یہی معنی مراد ہیں اور اس سے نسب اور بستر کی خیانت مراد نہیں ،کیونکہ کسی نبی کی بیوی بدکاری کی مرتکب نہیں ہوئی اور نہ اللہ تعالیٰ نے کسی بدکار عورت کو انبیائے کرام علیہم السلام میں سے کسی کی بیوی ہی بنایاہے۔ ﴿فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا ﴾”پس نہ کام آئے وہ دونوں۔ “یعنی حضرت نوح اور لوط علیہما السلام اپنی بیویوں کے کچھ کام نہ آئے﴿ مِنَ اللّٰہِ شَیْــــًٔا وَّقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیْنَ﴾ ”اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی اور انہیں کہا گیا کہ وہ جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجائیں۔“