مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ ۚ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے اور جو شخص [١٨] اللہ پر ایمان لائے تو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا [١٩] ہے اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے :﴿مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ ﴾ ”جو مصیبت بھی آتی ہے وہ اللہ ہی کے حکم سے آتی ہے۔“ یہ آیت کریمہ جان ،مال اولاد اور احباب کے مصائب وغیرہ سب کو شامل ہے، چنانچہ بندوں پر نازل ہونے والے تمام مصائب اللہ کی قضا وقدر سے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے، اس پر اس کا قلم جاری ہوچکا، اس پر اس کی مشیت نافذ ہوچکی اور اس کی حکمت نے اس کا تقاضا کیا۔ مگر اصل معاملہ یہ ہے کہ آیا بندے نے اس ذمے داری کو پورا کیا جو اس مقام پر اس پر عائد تھی یا وہ اس کو پورا نہ کرسکا؟ اگر اس نے اس ذمے داری کو پورا کیا تو اس کے لیے دنیا وآخرت میں ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے۔ پھر جب وہ اس حقیقت پر ایمان لے آیا کہ یہ مصیبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تب اس پر راضی ہوا اور اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ،تو اللہ کے قلب کو ہدیات سے بہرہ مند کردیتا ہے ،پس وہ مطمئن ہوجاتا ہے ،تب وہ مصائب کے وقت گھبراتا نہیں جیسا کہ اس شخص کو وتیرہ ہے جس کے قلب کو اللہ تعالیٰ ہدایت عطا نہیں کرتا مگر مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی اور موجبات صبر کو قائم کرنے کی توفیق سے نوزتا ہ،ے اس سے اس کو دنیاوی ثواب حاصل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ،جزا و سزا کے دن کے لیے ثواب کو ذخیرہ کردیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾(الزمر :39؍10) ”جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے حد وحساب اجر عطا کیا جائے گا۔“ اس سے یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ جو کوئی مصائب کے وارد ہونے پر اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کالحاظ نہیں کرتا بلکہ محض اسباب کے ساتھ ٹھہر جاتا ہے، تو اسے بے یارومددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ جب بندہ نفس پر بھروسا کرتا ہے تو نفس کے پاس چیخ وپکار اور بے صبری کے سوا کچھ نہیں ،یہ وہ فوری سزا ہے جو آخرت کی سزاسے پہلے بندے کو اس دنیا میں اس پاداش میں ملتی ہے کہ اس نے صبر میں کوتاہی کی جو اس پر واجب تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق ہے: ﴿وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ ﴾ اور جو کوئی اللہ پر ایمان لائے تو مصائب کے خاص وقت میں بھی اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا کرتا ہے ۔رہی وہ چیز جو عموم لفظی کی حیثیت سے اس سے تعلق رکھتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ ہر وہ شخص جو ایمان لایا، یعنی ایسا ایمان جو مامور بہ ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں ،یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا۔ پھر ایمان جن لوازم و واجبات کا تقاضا کرتا ہے، اس کے ایمان نے ان کی تصدیق کی۔ بلاشبہ یہی سبب جس کو بندے نے اختیار کیا ،اس کے اقوال وافعال ،اس کے تمام احوال اور اس کے علم وعمل میں اللہ کی طرف سے اس کے لیے ہدایت کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہ بہترین جزا ہے جو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عطا کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اہل ایمان کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی سے بہرہ مند کرتا ہے۔ اصل ثابت قدمی دل کی ثابت قدمی، اس کا صبر اور ہر قسم کے فتنے کے وارد ہونے کے وقت اس کا یقین ہے ۔چنانچہ فرمایا :﴿يُثَبِّتُ اللّٰـهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾(ابراہیم:14؍11) ”اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے مضبوط بات کے ذریعے سے دنیا اور آخرت کی زندگی میں ثابت قدمی عطا کرتا ہے۔“ پس اہل ایمان کے دل لوگوں میں سب سے زیادہ راہ ہدایت پر ہوتے ہیں اور وہ گھبراہٹ اور خوف کے موقعوں پر سب سے زیادہ ثابت قدم ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایمان ہے۔