هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ
یہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں [١٢] پر خرچ نہ کرو تاآنکہ وہ تتر بتر ہوجائیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے تو اللہ کے پاس ہیں مگر منافق لوگ سمجھتے نہیں۔
یہ ان کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے ساتھ شدت عداوت ہے کہ جب انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتحاد، ان کی باہمی الفت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی طلب میں ان کی جلد بازی کو دیکھا تو اپنے زعم فاسد کے مطابق کہنے لگے: ﴿لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ﴾ ”تم ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو اللہ کے رسول کے پاس ہیں یہاں تک کہ وہ( خود بخود )بھاگ جائیں۔“ کیونکہ ۔۔۔۔ان کے زعم باطل کے مطابق ۔۔۔۔اگر منافقین کے اموال اور نفقات نہ ہوتے تو مسلمان اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت کے لیے اکٹھے نہ ہوتے۔ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ یہ منافقین، جودین کی مدد چھوڑنے اور مسلمانوں کو اذیت دینے کی لوگوں میں سب سے زیادہ خواہش رکھتے ہیں، اس قسم کا دعوی کریں جس کو صرف وہی شخص قبول کرسکتا ہے جس کو حقائق کا علم نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلِلّٰہِ خَزَایِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ ”اور اللہ ہی کے لیے ہے آسمانوں اور زمین کے خزانے۔“ پس وہ جسے چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے رزق سے محروم کردیتا ہے ،جسے چاہتا ہے اس کے لیے رزق کے ذرائع آسان بنا دیتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے رزق کے ذرائع بہت مشکل کردیتا ہے ﴿ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوْنَ﴾ ”لیکن منافق نہیں سمجھتے۔“ اس لیے انہوں نے یہ بات کہی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ رزق کے خزانے ان کے قبضہ قدرت اور ان کی مشیت کے تحت ہیں۔