يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ
اے ایمان والو! ایسی [٢] بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔
﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ اے ایمان والو!تم نیکی کی باتیں کیوں کرتے ہو اور کیوں لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے ہو، بسا اوقات اس پر تمہاری تعریف بھی کی جاتی ہے اور حال تمہارا یہ ہے کہ تم خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتے ؟تم لوگوں کو بدی سے روکتے ہو اور بسا اوقات تم خود اپنے آپ کو اس سے پاک قرار دیتے ہو،حالانکہ تم اس بدی میں ملوث اور اس سے متصف ہو؟ کیا یہ مذموم حالت مومنوں کے لائق ہے یا یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑی ناراضی کی بات ہے کہ بندہ ایسی بات کہے جس پر خود عمل نہ کرتا ہو؟ اس لیے نیکی کا حکم دینے والے کے لیے مناسب یہی ہے کہ لوگوں میں سب سے پہلے اس نیکی کی طرف سبقت کرنے والا ہو اور بدی سے روکنے والا لوگوں میں سے سب سے زیادہ اسی بدی سے دور ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾(البقرۃ:2؍44)”کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا تم میں اتنی بھی سمجھ نہیں؟“ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا: ﴿ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ﴾(ہود:11؍88) ”اور میں نہیں چاہتا کہ جس کام سے میں تمہیں منع کرتا ہوں ،اسے خود کرنے لگوں۔“