يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ قَدْ يَئِسُوا مِنَ الْآخِرَةِ كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ
اے ایمان والو! ایسے لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ کا غضب [٣٠] ہوا، وہ تو آخرت سے ایسے ہی مایوس ہیں جیسے کافر اہل قبور [٣١] سے مایوس ہیں۔
یعنی اے مومنو! اگر تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو، اس کی رضا کی اتباع کرتے ہو اور اس کی ناراضی سے دور رہتے ہو تو ﴿لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ﴾ ”ان لوگوں سے دوستی نہ کرو جن پر اللہ ناراض ہوا ہے۔“اور اللہ تعالیٰ محض ان کے کفر کی وجہ سے ان پر ناراض ہے اور یہ کفر کی تمام اصناف کو شامل ہے۔ ﴿قَدْ یَیِٕسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ﴾ ”وہ آخرت سے اس طرح مایوس ہوچکے ہیں۔“یعنی انہیں آخرت کی بھلائی سے محروم کردیا گیا، اس لیے آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہ ہوگا۔ اس لیے تم ان کو دوست بنانے سے بچو ورنہ تم بھی ان کے شراور شرک کی موافقت کرنے لگو گے اور اس طرح تم بھی آخرت کی بھلائی سے محروم ہوجاؤ گے جیسے وہ محرم ہوگئے۔ ﴿کَمَا یَیِٕسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ﴾ ”جس طرح کافروں کو مردوں (کے جی اٹھنے )کی امید نہیں۔“ یعنی جب وہ آخرت کے گھر کو جائیں گے وہاں حقیقت امر کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں علم الیقین حاصل ہوگا کہ آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ نہیں۔ اس معنی کااحتمال بھی ہے کہ وہ آخرت سے مایوس ہوگئے ہیں ،یعنی انہوں نے آخرت کا انکار اور اس کے ساتھ کفر کیا ہے۔ تب ان سے یہ بات بعید نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کے کاموں اور اس کے عذاب کے موجبات کا اقدام کریں اور ان کا آخرت سے مایوس ہونا ایسے ہی ہے جیسے قیامت کا انکار کرنے والے کفار ،دنیا میں اصحاب قبور کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے سے مایوس ہیں۔