لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جونہ تم سے دین کے بارے میں لڑے [١٨] اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا، اس بات سے کہ تم ان سے بھلائی کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو۔ اللہ تو یقیناً انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
جب یہ آیات کریمہ، جو کفار کے ساتھ عداوت پر ابھارتی تھیں، نازل ہوئیں تو اہل ایمان نے ان پر عمل کیا ،انہوں نے ان آیات (کے تقاضوں) کو پوری طرح قائم کیا اور بعض مشرک قریبی رشتہ داروں سے تعلق کو گناہ تصور کیا اور سمجھا کہ یہ بھی اس ممانعت میں داخل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ یہ صلہ رحمی اس موالات ومودت کے دائرے میں نہیں آتی جو حرام ٹھہرائی گئی ہے۔ ﴿لَا یَنْہٰیکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے مشرک عزیز واقارب وغیرہ سے حسن سلوک، صلہ رحمی اور ان کو معروف طریقے سے انصاف کے ساتھ بدلہ دینے سے نہیں روکتا مگر اس صورت میں کہ انہوں نے دین کے معاملے میں تمہارے ساتھ جنگ کی ہو نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہو۔ اس لیے تم پر کوئی گناہ نہیں، اگر تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہو کیونکہ ان حالات میں صلہ رحمی ممنوع ہے نہ ایسا کرنے میں کوئی تاوان ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر والدین کے بارے میں ،جبکہ ان کا بیٹا مسلمان ہو، فرمایا: ﴿ وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ﴾(لقمان :31؍15)”اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کے بارے میں تجھے کوئی علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کر، البتہ دنیا میں معروف طریقے سے ان کے ساتھ نیک سلوک کرتا رہ۔“