لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيهِمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ ۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
انہیں لوگوں میں تمہارے لئے ایک اچھا نمونہ [١٣] ہے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہو اور جو کوئی سرتابی [١٤] کرے تو بلاشبہ اللہ بے نیاز اور اپنی ذات [١٥] میں محمود ہے۔
پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے دوبارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی پیروی کی ترغیب دی اور فرمایا:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْہِمْ اُسْوَۃٌ حَسَـنَۃٌ﴾ ”تحقیق تمہارے لیے انہی لوگوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔“ اور ہر شخص کے لیے اس نمونے کی پیروی کرنا آسان نہیں ،یہ صرف اسی شخص کے لیے آسان ہے ﴿لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ ﴾ ”جو اللہ (سے ملنے) اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہو۔ “کیونکہ ایمان اور اجر وثواب کی امید ،بندے کے لیے ہر مشکل کام کو آسان اور ہر کثیر کو اس کے سامنے قلیل کردیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اور انبیا ءومرسلین کی اقتدا کی موجب بنتی ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اس کا بے انتہا محتاج اور ضرورت مند سمجھتا ہے۔ ﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّ﴾ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور انبیا ومرسلین کی اقتدا سے منہ موڑتا ہے، وہ خود اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں دیتا اور وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔﴿فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَنِیُّ﴾ ”بے شک اللہ ہی بے پروا ہے۔“ جو ہر لحاظ سے غنائے مطلق کا مالک ہے اور کسی بھی پہلو سے وہ مخلوق میں سے کسی کا محتاج نہیں۔ ﴿الْحَمِیْدُ﴾ وہ اپنی ذات وصفات اور افعال میں قابل ستائش ہے اور ان تمام امور میں اس کی ستائش کی جاتی ہے ۔پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ وہ عداوت جس کے بارے میں اس نے اہل ایمان کا حکم دیا کہ وہ مشرکین کے ساتھ رکھیں ،اور اہل ایمان کو اس وصف سے موصوف کیا کہ جب تک مشرکین اپنے شرک اور کفر پر قائم ہیں ،وہ ان کی دشمنی پر قائم ہیں اور اگر مشرکین دائرہ ایمان میں منتقل ہوجائیں گے تو حکم بھی اپنی علت کے مطابق ہوگا اور مودت ایمانی لوٹ آئے گی۔